جنس اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی: وفاقی شرعی عدالت

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، اس لیے جنس کا تعین انسان کے جذبات سے نہیں کیا جا سکتا۔

وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنس کا تعین انسان کے جذبات سے نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام آباد میں جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے کہا کہ ’جنس کا تعلق انسان کی حیاتیاتی جنس (biological sex) سے ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، جنس کا تعین انسان کے جذبات سے نہیں کیا جا سکتا۔‘

عدالت نے مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں، اسلام بھی خواجہ سراؤں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ 

عدالت کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ کا سیکشن دو این شریعت کے خلاف نہیں، اور خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔

’خواجہ سراوں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گا۔ شریعت کسی کو نامرد ہو کر جنس کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔‘

فیصلے کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کر کے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا، جب کہ ’وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔ مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہو گا۔‘

عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے قوانین بھی غیرشرعی قرار دیے ہیں۔ 

یاد رہے پانچ سال قبل پاکستان نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق قدم بڑھاتے ہوئے ٹرانس جینڈر پرسن (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 قانون نافذ کیا۔ یہ ایکٹ کام کی جگہوں، سکولوں اور عوامی مقامات پر خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکنے کے ساتھ ان پر تشدد اور ہراسانی کو جرم قرار دیتا ہے۔ اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو سرکاری دستاویزات/ریکارڈ میں ان کی جنس کے انتخاب کے حق کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ قانون بننے کے بعد ہی وفاقی شرعی عدالت میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔

ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ میں کیا تھا؟

ٹرانس جینڈر پرسنز یا خواجہ سرا افراد (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے نفاذ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوا جہاں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں، ہسپتالوں، عوامی مقامات اور وراثت کے حصول میں حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون میں ٹرانس جینڈر اشخاص کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تین اقسام انٹر سیکس، خنثہ اور ٹرانس جینڈر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ قانون پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی شناخت فراہم کرنے کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کے لیے اقدامات واضع کرتا ہے بلکہ مقامی حکومتوں پر خواجہ سراوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ ٹرانس جینڈرز کے سکولوں، کام کی جگہ اور عوامی طریقوں اور طبی بنیادوں پر دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔

قانون کے مطابق ٹرانس جینڈر افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق سے دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنےاور حکومت کو جیلوں میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بھی بناتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان