انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے: چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس کے خلاف دائر درخواستوں پر اٹارنی جنرل، وفاق، صدر پاکستان کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری نوٹس جاری کر دیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان  (اے ایف پی)

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے بدھ کو دو اہم کیسز کی مشترکہ سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’ایک بات اچھی ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے کہا کہ عدالت میں ہی دلائل دیں گے جو کہ قانونی ہیں، ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے، اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟ انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے۔‘

بدھ کو پنجاب میں انتخابات کی تاریخ پر نظر ثانی اور ججمنٹ ریویو ایکٹ کیسز کی مشترکہ سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہوئی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’دونوں کیسز کو ایک ساتھ سنتے ہیں۔‘

عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ ’ سپریم کورٹ نظر ثانی سے متعلق نئے قانون پر آپ کا کیا موقف ہے؟ ہم کیا سوچ رہے ہیں، پھر ہم بتا دیں گے، ہمارے پاس کچھ درخواستیں آئی ہیں، ریویو ایکٹ کے معاملے کو کسی سٹیج پر دیکھنا ہی ہے، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا۔‘

اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’میرے مطابق ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین سے متصادم ہے، حکومت نے اس سے پہلے سپریم کورٹ سے متعلق قانون بنایا، دوسرے قانون پرلگائی گئی پابندی اس ایکٹ پر بھی لاگو ہو گی، نیا قانون ان پر لاگو ہو گا، جنہوں نے نظر ثانی دائر نہیں کی۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی نظر ثانی کی درخواست دائر کر چکا ہے۔ ’میرے مطابق عدالت انتخابات سے متعلق کیس سن سکتی ہے۔ عدالت دلائل مکمل ہونے پر فیصلے کو دوسرے کیس سے مشروط کر سکتی ہے، مجھے یقین ہے کہ عدالت نئے ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونے کے نتیجے پر پہنچے گی۔‘

علی ظفر کے دلائل سن کر چیف جسٹس مسکرا دیے۔ علی ظفر نے مزید کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن کو نظر ثانی کو مکمل کرنے کی اجازت دے۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ’اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہو گا، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے، اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ آپ بتائیں کہ کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟ آپ کیا کہتے ہیں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پرانے قانون کے تحت سنی جائے؟‘

اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’جی، ابھی اس درخواست کو پرانے قانون کے تحت سن لیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ کوئی برانڈ نیو کیس نہیں ہے، یہ پہلے سے ہوئے فیصلہ کے خلاف اپیل ہے، آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین کے نفاذ پر سب کلیئر نہیں ہیں، جو کچھ ملک میں ہوا میں نو مئی کا حوالہ دے رہا ہوں۔‘

اس پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ملک میں آئین 14 مئی کے بعد مر چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لارجر بینچ بنا تو اس کے سامنے نئے نکات بھی اٹھائے جائیں گے، قانون کو رول بیک کرنا ممکن نہیں ہو گا، سوال یہ ہے کہ 90 دن میں الیکشن پر آئینی سنجیدگی ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا تھا کیا آٹھ اکتوبر کو الیکشن ہوں گے یہ آپ حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں؟ ملک میں جو ایونٹ ہوچکے اس کے بعد یہ سوال رکھا ہے، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کو نئے قانون میں نیا نام دیا گیا؟

علی ظفر نے جواباً کہا کہ ’نظر ثانی اور اپیل دونوں قانون میں الگ الگ چیزیں ہیں۔ آئین کے برخلاف جا کر ایک قانون میں ریویو کو اپیل بنا دیا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس قانون کو محدود کر دیا گیا ہے 184(3) پر، 14مئی کو انتخابات کے فیصلے کو اب واپس لانا ممکن نہیں ہے۔ انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کر دیے ہیں کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور کن میں نہیں۔‘

گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے دو قوانین بنائے گئے، حالیہ قانون نظرثانی درخواستوں سے متعلق تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون دونوں میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں قوانین کو باہمی تضاد سے بچانے کے لیے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا کیوں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کی مشاورت سے اب قانون میں ترمیم ہو گی۔

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس کے خلاف دائر درخواستوں پر اٹارنی جنرل، وفاق، صدر پاکستان کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری نوٹس جاری کر دیے۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے، درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کر رہے ہیں، ریویو آف ججمنٹس ایکٹ سے متعلق پہلے قانونی نکتہ کو طے کرنا ہو گا۔ عدالت نے تمام درخواستوں کی سماعت کو 13 جون تک ملتوی کر دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان