آڈیو لیکس تحقیقات: پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں تصادم کا خطرہ

عدالتی، آئینی، قانونی اور ریاستی معاملات میں سنگین صورت حال پیدا ہو جائے تو صدر مملکت نیک نیتی سے پارلیمان اور عدلیہ کے تصادم کا مثبت حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔

پولیس اہلکار آٹھ مارچ 2023 کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیاسی ڈھانچے کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان ایک شدید طوفانی موسم سے دوچار ہیں۔

ان پر نو مئی کی ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے، جب اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس میں گرفتاری کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کے اہم شہروں میں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکری تنصیبات پر حملے ہوئے۔

پشاور میں فساد کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کر دیا گیا جو قومی ورثے کی حیثیت رکھتی تھی۔ لاہور اور پشاور میں جو کچھ ہوا وہ بھی بہت ہی شرم ناک ہے۔

اس میں ملوث عناصر آرمی ایکٹ 52 کی شق 59 کی زد میں آ چکے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان میں سیاسی طوفان ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

تحریک انصاف کی نصف سے زائد قیادت نے اپنے سربراہ سے لاتعلقی کے اعلامیے جاری کر دیے ہیں اور عمران خان کے دست راست ان سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔

اسی دوران انٹیلی جنس اداروں نے ایک گفتگو کا ذکر کیا ہے جس  میں دو طرح کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ گفتگو تحریک انصاف کے گھر چھاپے سے متعلق ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ریپ ایکٹ کا الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگا کر یہ معاملہ عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔

نو مئی کے عسکری مخالف فسادات کے خوف ناک مضمرات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔  کچھ منظر سامنے آ گئے ہیں اور امکان ہے کہ مناظر کا ایسا سلسلہ نمودار ہوتا چلا جائے کہ دم توڑتی سیاست کی راکھ سے جانے کسی چنگاری سے ایسی شخصیت سامنے آ جائے جو مستقبل کی نوید لے کر ظہور ہو جائے۔

بلاشبہ نو مئی کو جو کچھ ہوا، جو اس منصوبے کا سرغنہ تھا اور جنہوں نے اس پر عمل کیا، وہ سب سنگین جرم  کے مرتکب ہوئے اور انہیں سزا دینا حکومت اور ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔

تاہم عدالتی اور قانونی کارروائی کا پوری طرح شفاف اور منصفانہ رکھا جانا اور ظلم کی ہر شکل سے اجتناب کا اہتمام کرنا لازمی ہے۔ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ اس طرح ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے کہ کسی کے لیے اس پر اعتراض ممکن نہ ہو۔

آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل انکوائری ایکٹ 1956 کے مطابق بالکل قانونی تھی۔ جب چیف جسٹس کی ساس صاحبہ اور ایک معروف وکیل کی بیگم صاحبہ کا معاملہ آیا اور ساس صاحبہ نے آڈیو میں جسٹس منیب کا بھی ذکر کیا تو انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ چیف جسٹس اس کیس کو نہ سنتے۔

عدالتی ضابطہ اخلاق کے مطابق جسٹس منیب کو بھی اس کیس میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا جب کہ چیف جسٹس نے کمیشن معطل کر کے خود کو متنازع بنا لیا۔ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان عدم اعتماد بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور بڑے ادب سے رائے دی جا سکتی ہے کہ ماضی اور حال کے تمام فیصلوں کو مدنظر رکھا جائے تو محترم چیف جسٹس نے عدلیہ کو کمزور کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے دو مئی کو اپنی نظرِثانی کی اپیل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بے بس کر کے اس کی خودمختاری میں مداخلت کی اور آئین کے آرٹیکل 218(3)، 222 اور 237 کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 58 کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔

جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن قانون کے تحت تشکیل دیا گیا، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی اور بغیر نوٹس کمیشن کیسے معطل ہوا، جب کہ قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پتہ توچلے کہ کون آڈیوز جاری کر رہا ہے؟ یہ اصلی ہیں بھی یا نہیں؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی جج پر الزام ہو تو ایسے ہی چلنے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں ایک بہت اہم جملہ لکھا تھا جس پر حکومت اور مقتدر حلقوں کو غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس کے فیصلے سے بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا۔

بادی النظر میں اگر آئین، قانون اور ریاست کے مفاد کو دیکھا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الارم کر دیا کہ سپریم کورٹ کے سربراہ نے فیڈریشن کو کمزور کیا ہے۔

ایسے عدالتی، آئینی، قانونی اور ریاستی معاملات میں جب سنگین صورت حال پیدا ہو جائے تو صدر مملکت جو ریاست کا رسمی سربراہ ہوتا ہے نیک نیتی سے پارلیمان اور عدلیہ کے تصادم کا مثبت حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے صدر مملکت بگڑتے حالات میں بامقصد اقدامات، جس سے وفاق مستحکم ہونا تھا، کرنے سے قاصر ہیں۔

وہ ملک و قوم کو متحد کرنے والی قوت کے طور پر کام کرنے کی بجائے زمان پارک کے مخصوص مکین کے ساتھ مل کر ان کے غیر آئینی اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔

انہیں احساس نہیں کہ عمران خان عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بطور سپریم کمانڈر صدر مملکت کو عمران خان کی بازپرس کرنی چاہیے تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں احساس نہیں کہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا اور سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے وہ آئین کے آرٹیکل فائیو کے تحت قومی رہنماؤں کو ایک میز پر لا سکتے تھے اور عمران خان کو بھی اس کانفرنس میں صدارتی حکم کے تحت لا سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے پارٹی مفادات کو مدنظر رکھا۔

وفاقی حکومت اور آڈیو لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھجوایا جا سکتا تھا، آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا تھا کہ آڈیو لیکس کے حوالے سے حکومت کی رہنمائی کی جائے۔

بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی آڈیو لیکس کمیشن کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے پر ملک کے قانونی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بالعموم حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اب حکومت آڈیو لیکس کی تحقیقات، سپریم کورٹ کے فیصلے پر قومی اسمبلی میں قرارداد کی صورت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان قومی اسمبلی، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی مذمت اور نامنظوری کے لیے ایوان میں قرارداد لانے پر غور کر رہے ہیں اور قومی اسمبلی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر قانونی غور و غوض کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے پر غور کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ عدالتی ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے قانون سازی میں حکومت کی مدد کی اور دستخط کر دیے۔ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کا طریقہ واضح کر دیا گیا ہے، عام تاثر ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی اپیل دائر کر سکیں گے جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔

سپریم کورٹ آرڈر ایکٹ سے نواز شریف یا جہانگیر ترین کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین اپنی سزاؤں کے خلاف نظرِثانی کا حق استعمال کر چکے ہیں اور قانون میں دوسری بار نظرِثانی کی گنجائش نہیں۔

ایکٹ کا دائرہ کار قانون بننے سے پہلے کے فیصلوں پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے رولز پر بھی ہو گا۔ اس قانون کے تحت ماضی کے کسی بھی مقدمے میں نظرِثانی دائر کی جا سکتی ہے اور عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ