سوڈان میں سعودی سفارت خانے پر حملہ، ریاض کی شدید مذمت

سعودی وزارت خارجہ نے مملکت کی طرف سے سفارتی مشنوں اور نمائندوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور تخریب کاری کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔

جنوبی خرطوم میں 7 جون 2023 کو جاری لڑائی کے دوران لکڑی کے گودام میں لگنے والی آگ سے دھواں اٹھ رہا ہے (اے ایف پی)

سعودی وزارت خارجہ نے جمعرات کو سوڈان میں سعودی سفارت خانے کی عمارت اور اس کے ملحقہ علاقے میں سعودی ملازمین کی رہائش گاہوں اور املاک کو سبوتاژ کرنے کے علاوہ کچھ مسلح گروہوں کی طرف سے کی جانے والی ’تخریب کاری‘ اور ’چھیڑ چھاڑ‘ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق وزارت خارجہ نے مملکت کی طرف سے سفارتی مشنوں اور نمائندوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور تخریب کاری کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ان مسلح گروہوں کا مقابلہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا جو سوڈان اور اس کے برادر ممالک کے شہریوں کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایس پی اے کے مطابق عرب پارلیمنٹ نے بحرین کے سفارت خانے اور سوڈانی دارالحکومت میں اس کے سفیر کی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراندازی اور حملے ریاستوں کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کیوں کہ ان کے سرکاری ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی معاہدوں کے قواعد کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔

عرب پارلیمنٹ کے سپیکر عادل العسومی نے ایک بیان میں سفارتی مشنز اور ان کے ہیڈکوارٹرز کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کو پارلیمنٹ کی جانب سے مسترد کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے سوڈانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں تاکہ وہ سوڈان جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

پارلیمنٹ کے سپیکر نے سوڈانی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تنازعات کو فوری طور پر روکیں اور جنگ بند کریں، جدہ میں ہونے والے حالیہ عرب سربراہی اجلاس کے فیصلوں کی پاسداری کریں، سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے ماحول پیدا کریں اور مذاکرات کو ترجیح دیں تاکہ موجودہ بحران سے باہر نکل سکیں اور سوڈان کے اتحاد اور خودمختاری کو برقرار رکھ سکیں۔

سوڈان میں جاری لڑائی کا پس منظر

سوڈان کے آرمی چیف عبدالفتح آل برہان اور ان کے نائب محمد حمدان ڈگلو، جو طاقتور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس  ایف) کی کمان کرتے ہیں، کے درمیان اقتدار کی کشمکش کئی ہفتوں سے جاری ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوڈان میں شدید لڑائی کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

برہان اور ڈگلو کے درمیان یہ لڑائی آر ایس ایف کو باقاعدہ فوج کا حصہ بنانے کے منصوبے پر تلخ اختلافات کے بعد شروع ہوئی۔

یہ عمل  اس حتمی معاہدے کی ایک اہم شرط ہے جس کا مقصد 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد پیدا ہونے والے بحران کو ختم کرنا تھا جس میں دونوں فوجی کمانڈروں نے مل کر بغاوت کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2019 میں صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد فوجی بغاوت پہلے ہی سویلین حکمرانی کی بحالی کے عمل کو پٹڑی سے اتار چکی ہے اور سوڈان کو بڑھتے ہوئے معاشی بحران کو سنگین بنا چکی ہے۔

جھڑپوں کی وجہ سے سوڈانی شہری گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ایک ایسی طویل لڑائی جاری ہے جو ملک کو گہرے انتشار میں دھکیل چکی ہے۔

آر ایس ایف 2013 میں صدر بشیر کے دور میں قائم کی گئی تھی۔ اس میں جنجاوید مسلح جتھے کے لوگ شامل تھے۔ جنجاوید ملیشیا صدر بشیر کی حکومت نے ایک دہائی قبل دارفور میں غیر عرب نسلی اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے بنائی تھی جس پر ان کی حکومت پر جنگی جرائم کے  الزامات لگائے گئے۔

سوڈان کے ملٹری کمانڈر جنرل عبدالفتح برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد حمدان ڈگلو سے ملاقات کے دوران سعودی شہزادے فیصل بن فرحان نے 17 اپریل 2023 کو ملک کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا اور زور دیا کہ اس معاہدے پر دوبارہ عمل کیا جائے جو سوڈان اور اس کی عوام کے لیے استحکام اور امن کا باعث ہو۔

سوڈان سے پاکستان، امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کے انخلا میں سعودی عرب نے فعال کردار ادا کیا ہے اور بحری جہازوں کے ذریعے سینکڑوں افراد کو پورٹ سوڈان سے نکالا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا