کتا کاٹ لے تو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟

پاگل کتے کے کاٹنے سے کون سی بیماری ہوتی ہے، اس کا علاج کیا ہے اور دیسی ٹوٹکے کتنے مفید ثابت ہوتے ہیں؟ 

ڈاکٹروں کے مطابق اگر کتے، بلی اور ریبیز وائرس والے جانوروں کو ویکسین لگائی جائے تو انسانوں کو کاٹنے کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے (اے ایف پی/فائل فوٹو)

خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے گاؤں ملک آباد میں رواں ماہ ایک کتا چھ بچوں سمیت 10 افراد کو کاٹ چکا ہے، جس کے بعد نہ صرف اس کتے کو مارنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں بلکہ کتے کے کاٹے کے علاج اور تدابیر کے حوالے سے بھی بحث شروع ہوئی۔

حالیہ واقعہ لوئر دیر کے گاؤں ملک آباد میں اس وقت پیش آیا جب مدرسے کے دو بچے واپس گھر جا رہے تھے کہ راستے میں باولے کتے نے انہیں کاٹ لیا۔ ان میں سے ایک بچے کی عمر چھ سال اور دوسرے کی آٹھ سال ہے، جو اب ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

دونوں بچوں کے چچا انور الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بچے دوپہر کے وقت مدرسے سے واپس گھر آ رہے تھے کہ راستے میں گلیوں کے اندر باولے کتے نے انہیں کاٹ لیا اور اب وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔‘ 

تیمرگرہ ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ میں تعینات اعجاز حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسی گاؤں کے چھ بچوں سمیت 10 لوگوں کو اسی کتے نے کاٹا تھا اور انہیں علاج کے لیے لایا گیا تھا۔ 

اعجاز نے بتایا: ’زخمیوں میں زیادہ تر بچے شامل تھے جو گھر کے باہر یا تو کھیل رہے تھے، یا گھر واپس جا رہے تھے کہ راستے میں بچوں کو دیکھ کر کتے نے ان کو کاٹ لیا۔‘ 

انور الحق کے مطابق یہ کتا اس علاقے میں پہلے نہیں دیکھا گیا بلکہ یہ کسی اور جگہ سے آیا تھا اور گاؤں کی تنگ گلیوں میں گھس گیا تھا اور اس نے جس کسی کو بھی دیکھا، اسے کاٹ لیا۔ 

اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے بشیر اقبال نے بتایا کہ لوگوں کی جانب سے مختلف وٹس ایپ گروپوں میں پیغامات بھیجے گئے کہ یہ کتا اب دوسرے گاؤں کی طرف جا رہا ہے۔ 

پیغامات میں بتایا گیا تھا کہ جس کسی کو ایسا کوئی کتا نظر آئے تو اس کو مار دیا جائے تاکہ وہ مزید کسی کو نہ کاٹ سکے۔

بشیر اقبال نے بتایا: ’گرمیوں میں یہاں پر باولے کتوں کا آنا معمول ہے لیکن اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں دیکھے گئے۔ گاؤں میں عموماً بچے گھر سے باہر کھیلتے ہیں اور زیادہ تر بچے سکول سے واپس پیدل آتے ہیں تو ان کو کتوں سے بچوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘

ان واقعات کے بعد علاقے کے لوگ کتے کو مارنے کے لیے باہر گشت کرتے رہے اور بالآخر اسے مار ڈالا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق: ’اس کتے کو مارنے کے سوا کوئی حل نہیں تھا کیونکہ یہ مزید لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرمیوں کے موسم میں عموماً کتے کے کاٹنے کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں، ان سطور میں اس حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ کتے کے کاٹنے کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ زخمی کو کتنا جلدی ہسپتال پہنچانا چاہیے؟ اور کیا کتے کے کاٹنے کی ویکسین لگانا اہم یا نہیں؟ 

اس حوالے سے ہم نے طب کے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کتے کے کاٹنے کے بعد انسانی جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور باولے کتے کا وائرس کتنا خطرناک ہے؟

ڈاکٹر ضیاالحق خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور پبلک ہیلتھ میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کتے کے کاٹنے سے ’ریبیز‘ نامی وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس صرف کتوں میں نہیں بلکہ گدھے، بلی، لومڑی اور دیگر جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ گرمیوں میں یہ واقعات زیادہ ہو جاتے ہیں اور ایسے واقعات کو کم کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کتوں اور دیگر جانوروں کو ویکسین لگانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات کم ہو سکیں۔

تاہم ڈاکٹر ضیا الحق کے مطابق اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو سب سے پہلے 15 منٹ کے اندر اندر زخم کو پایوڈین یا صابن کی مدد سے صاف کرنا چاہیے۔ 

 انہوں نے بتایا: ’ہمارے ہاں زخم پر نمک چھڑکا جاتا ہے جو زخم کو مزید خراب کر دیتا ہے کیونکہ وائرس زخم کے مزید اندر چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے روایتی طریقوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘ 

ڈاکٹر ضیا الحق کے مطابق متاثرہ شخص کو 12 گھنٹے سے ایک دن کے اندر ہسپتال پہنچانا چاہیے یا جتنی جلدی ہو سکے، پہنچایا جائے اور اینٹی ریبیز کی ویکسین لگانی چاہیے۔ 

انہوں نے بتایا: ’مراکز صحت میں طبی عملہ متاثرہ شخص کو چیک کرے گا۔ اگر وائرس کے پھیلنے کے اثرات مریض میں نمایاں ہو گئے ہیں تو بدقسمتی سے ایسے مریض کا بچنا پھر مشکل ہو جاتا ہے اور اسے پھر اینٹی ریبیز ویکسین لگانے سے بھی فائدہ نہیں ہوتا۔‘ 

امریکہ کے کلیولینڈ نامی مرکز صحت کے مطابق کتے کے کاٹنے کے پہلے آٹھ گھنٹوں میں مریض کو ہسپتال پہنچانا چاہیے اور اگر متاثرہ شخص ذیابیطس کا مریض ہے، تو انفیکشن کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، لہذا ایسی صورت میں جتنا جلدی ہو سکے مریض کو ہسپتال پہنچانا چاہیے۔

ڈاکٹر ضیا الحق کے مطابق اگر بروقت متاثرہ شخص کو ہسپتال پہنچایا جائے تو اینٹی ریبیز ویکسین لگانے سے متاثرہ شخص نارمل ہو جائے گا، لیکن زخم کو صاف کرنا نہایت اہم ہے اور ہسپتال میں بھی دوبارہ اس زخم کو صاف کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر ضیا الحق نے بتایا: ’اگر وقت زیادہ گزر گیا ہے اور مریض میں علامات شروع ہو گئی ہوں تو اس حالت میں پھر مریض کو کسی وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ یہ وائرس ایک سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا، تاہم بہتر یہی ہے کہ مریض کو ہاتھ لگانے سے پہلے دستانے پہنے جائیں۔‘

وائرس پھیلنے کی علامات کیا ہیں؟
 
امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق کتے یا کسی دوسرے جانور کے کاٹنے کے بعد ریبیز وائرس شریانوں کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کو منتقل ہوتا ہے، جس کے بعد علامات شروع ہو جاتی ہیں اور دماغ تک وائرس پہنچنے میں دو، تین سے 12 ہفتے لگتے ہیں۔ 

یہ وائرس کتے یا کسی بھی جانور کے تھوک میں موجود ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد انسانی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔

اسی مرکز کے مطابق ابتدائی علامات دو سے تین مہینوں تک بھی شروع ہو سکتی ہیں اور علامات کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کتے نے انسانی جسم کے کون سے حصے پر کاٹا ہے اور یہ حصہ دماغ سے کتنا دور ہے، کیونکہ جتنا دور حصہ ہو، اتنا ہی وائرس دماغ تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔

علامات میں زکام، کمزوری، بے چینی، بخار اور سر درد شامل ہیں۔ اس کے بعد جب وائرس دماغ تک پہنچ جائے تو خوف، دماغی کمزوری، کنفیوژن، ابنارمل عادات، ہالوسینیشن (ایسی چیزوں کو دیکھنا اور یا آوازوں کو سننا جو حقیقت میں موجود نہ ہوں) اور پانی سے ڈرنے (ہائیڈروفوبیا) کی علامات شامل ہیں۔

پانی سے ڈرنے کی علامت کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ دماغ میں ریبیز وائرس پہنچنے کے بعد یہ وائرس انسان کے منہ میں تھوک میں شامل ہو جاتا ہے اور جب ایسا مریض پانی پیتا ہے، تو پانی کی وجہ سے اس کے گلے میں شدید قسم کا درد محسوس ہوتا ہے اور اس کے لیے پانی پینا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس مرکز کے مطابق: ’جب یہ علامات شروع ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد مریض کا بچنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں اب تک ریبیز وائرس کے 20 سے بھی کم واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں متاثرہ اشخاص صحت یاب ہوئے ہیں۔‘

 ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایسے جانورں کو مارنا ہی حل ہے تاہم ڈاکٹر ضیا الحق کے مطابق اگر کتے، بلی اور ریبیز وائرس والے جانوروں کو ویکسین لگائی جائے تو ایسے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے اور یہ ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی ہے کہ وہ جانوروں کی ویکسنیشن کا بندوبست کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت