سوات: ’مبینہ عسکریت پسندوں‘ کے سر کی قیمت پانچ لاکھ مقرر

جب ڈی پی او سوات سے سوال کیا گیا کہ ’اگر اشتہار اصلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوات پولیس نے علی الاعلان سوات میں ’دہشت گردوں‘ کی موجودگی کی تصدیق بالاخر کر لی ہے؟‘ تو ان کا جواب تھا کہ ’کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔‘

25 اپریل 2023 کو سوات میں ایک پولیس اہلکار دھماکوں کے بعد جائے وقوع پر (اے ایف پی)

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں پولیس نے عسکریت پسندی کے حالیہ واقعات سے نمٹنے کے لیے ’مبینہ عسکریت پسندوں‘ کی شناخت میں مدد کرنے والے افراد کو پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔

آٹھ جون 2023 کو سوات میں سبزی منڈی کے مقام پر مینگورہ سٹی پولیس سٹیشن کے دو پولیس اہلکاروں عمرا خان اور اشرف علی کو دوران ڈیوٹی عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں دونوں اہل کار موقعے پر دم توڑ گئے تھے جبکہ اس فائرنگ کی زد میں آنے والے نجی بینک کے سکیورٹی گارڈ موسیٰ خان کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تاہم جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 

سوات پولیس کے مطابق ’جائے وقوع سے حاصل ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے تین مشکوک افراد کی ابتدائی نشاندہی ہو گئی ہے تاہم کاؤنٹر ٹیررازم ڈٰیپارٹمنٹ کی جانب سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘

اگرچہ چار دن قبل تک سوات میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کو ’نامعلوم افراد‘ سے منسوب کیا جاتا رہا ہے تاہم پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ نہ صرف خیبرپختونخوا پولیس کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر بلکہ ایک باقاعدہ اشتہار کے ذریعے سوات ضلعی پولیس کی جانب سے بھی واضح الفاظ میں سبزی منڈی کے واقعے کو ’دہشت گردی‘ سے منسوب کرکےلکھا گیا کہ ’دہشت گردوں کی شناخت میں سوات پولیس کا ساتھ دیں۔‘

تصدیق کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نےضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) شفیع اللہ گنڈا پور سے رابطہ کیا تو انہوں نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’متعلقہ اشتہار اصلی ہے اور یہ کسی عام شہری کی جھوٹ پر مبنی کارستانی نہیں بلکہ سوات کی ضلعی پولیس نے ہی حالیہ واقعے کے نتیجے میں جاری کیا ہے۔‘

’سبزی منڈی کے واقعے میں ہمارے دو کانسٹیبل اور ایک نجی بینک کے سکیورٹی گارڈ کو تین بے نقاب افراد نے دن دیہاڑے شہید کیا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’اگر اشتہار اصلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوات پولیس نے علی الاعلان سبزی منڈی کے واقعے میں ’دہشت گردوں‘ کے ملوث ہونے اور سوات میں ’دہشت گردوں‘ کی موجودگی کی بھی تصدیق بالاخر کر لی ہے؟‘

جواب میں انہوں نے کہا کہ ’واقعے کے فوراً بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی، اس کے بعد اس حوالے سے کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔‘

’ٹی ٹی پی کی پریس ریلیز واقعے کے فوراً بعد جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ چونکہ سوات پولیس نے ان کے بندوں کو شہید کیا تھا تو یہ اسی کا بدلہ ہے۔ اس اعتراف کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ عوامی تعاون کتنا مفید اور کارگر ثابت ہوسکتا ہے، ڈی پی او نے کہا کہ ’دہشت گرد بھی ربط و روابط رکھتے ہیں، ان کے بھی خاندان اور رشتے دار ہوتے ہیں، ان کے ٹھکانے اور سہولت کار ہوتے ہیں، اس لیے عوامی تعاون بہت ضروری ہے اور یہ طریقہ کارگر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھانہ مینگورہ سٹی پولیس کے اہلکار زیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دہشت گردوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی اطلاع کو مکمل صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے متعلق معلومات اشتہار میں مہیا کیے گئے رابطہ نمبر یا سوات کے کسی بھی پولیس سٹیشن پر دی جا سکتی ہیں۔‘

پاکستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندی کے واقعات میں حالیہ دنوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں سال پاکستان میں عسکریت پسندی کے 187 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں کُل 572 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ متذکرہ اعدادوشمار کی تفصیلات کے مطابق 81 پاکستانی شہری، 272 سکیورٹی اہلکار اور 217 عسکریت پسند ان حملوں کی نذر ہوچکے ہیں، جب کہ دو افراد کی شناخت نہیں ہو پائی ہے۔

اگر صرف خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو رواں سال عسکریت پسندی کے 97 واقعات میں اب تک 354 افراد جان سے گئے ہیں۔ ان میں 27 عام شہری اور 160 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 167 عسکریت پسند شامل ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان