سوات دھماکہ: پہلے پہنچنے والے ریسکیو اہلکار نے کیا دیکھا؟

ریسکیو اہلکار جواد احمد سے ہماری ملاقات جائے وقوعہ پر ہی ہوئی جہاں وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دھماکے کے دوسرے دن بھی ریسکیو آپریشن میں مصروف تھے۔

’ہم چند منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔ لوگ ملبے تلے دبے تھے، کسی کے ہاتھ پاؤں کٹے تھے تو بعض افراد ایسے بھے ملے جن کے صرف دھڑ تھے اور سر نہیں مل رہے تھی۔‘

یہ کہنا تھا ریسکیو 1122 کے میڈیکل ٹیکنیشن جواد احمد کا، جو سوات میں پیر کو محکمہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والی پہلی امدادی ٹیم کا حصہ تھے۔

سوات میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں دھماکہ پیر کی شب ہوا جس میں اب تک 17 اموات اور 51 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

ریسکیو اہلکار جواد احمد سے ہماری ملاقات جائے وقوعہ پر ہی ہوئی جہاں وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دھماکے کے دوسرے دن بھی ریسکیو آپریشن میں مصروف تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کا دفتر جائے وقوعہ سے چند گز کی دوری پر ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ دھماکے کی آواز انہوں نے بھی سنی اور ایمرجنسی نمبر پر اطلاع ملتے ہی ہم دو منٹ میں موقع پر پہنچ گئے۔‘

جواد احمد بتاتے ہیں کہ ’دھماکے کے مقام پر پہنچے تو سامنے دلخراش مناظر تھے۔ انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے اور ملبے تلے دبے زخمی افراد مدد کے لیے چیخ رہے تھے۔ یوں ہم نے پہلے زخمیوں کو ریسکیو کرنے کا فیصلہ کیا اور بعد میں لاشیں اٹھائیں۔‘

ان کے مطابق چونکہ یہ واقعہ بڑا تھا لہذا تحصیل کبل سمیت پورے سوات اور قریبی اضلاع سے بھی ریسکیو ٹیموں کو جائے وقوعہ کی جانب روانہ کیا گیا۔

جواد احمد نے بتایا کہ دھماکے سے بیرکس کا حصہ متاثر ہوا تھا تو وہاں پر زخمی افراد پڑے تھے جبکہ بعض لوگ دھماکے کی شدت کی وجہ سے بیرکس سے نیچے گر کر گاڑیوں کے نیچے آگئے تھے۔

’ہمیں تو دھماکے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کیونکہ کچھ لاشیں دور گری پڑی تھیں جبکہ زخمی افراد ملبے تلے دبے تھے اور زیادہ تر کو سر پر چوٹیں آئی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بعض زخمی افراد کچھ بولنا چاہتے تھے لیکن زیادہ خون بہنے اور گہری چوٹیں آنے کی وجہ سے ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ہمیں زخمیوں کی باتوں کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔‘

’ایسے حالات میں ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ زخمیوں کو جتنا ممکن ہو سکے ایمبولینس میں ابتدائی طبی امداد دے کر ہسپتال منتقل کیا جائے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ زیادہ تر زخمیوں کو ضلع کے بڑے سرکاری ہسپتال سیدو ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘

جواد احمد کے مطابق ’ہم نے 50 سے زائد زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کیا اور اس کے بعد لاشوں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ اب تک 17 لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’لاشوں میں پانچ افراد کی شناخت نہیں ہوئی ہے جبکہ باقی افراد کی شناخت ہو چکی ہے اور ان کو اپنے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب عید کی چھٹیاں چل رہی تھیں ’تو ہمیں کفن ملنے میں مشکلات تھیں لیکن ہم نے یہاں ایک مقامی دکاندار کے گھر جا کر ان سے کفن بنانے کی درخواست کی اور وہ مان گئے۔ یوں کفن کا بندوبست کیا گیا۔‘

’وہ لمحہ انتہائی دکھ کا ہوتا ہے جب کوئی زخمی پانچ، دس منٹ آپ کے ہاتھوں میں رہے اور بعد میں زخموں کو تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیں۔‘

جواد احمد نے کہا کہ ’لاشیں جب لواحقین کو حوالہ کرتے ہیں، تو ان کو ساتھ میں دلاسہ بھی دیتے ہیں لیکن ایسے حالات میں جب لواحقین اپنے پیاروں کو دیکھیں، تو حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔‘

’نامعلوم انسانی اعضا کو امانتاً دفنایا گیا‘

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے بڑے سرکاری ہسپتال سیدو ٹیچنگ ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد خان کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں دھماکے میں مرنے والی پانچ لاشیں ایسی تھیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی جس کے بعد انہیں امانتاً دفن کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویوں میں ڈاکٹر محمد خان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور 18 لاشیں ہسپتال لائی گئی تھیں جن میں سے پانچ کی شناخت نہ ہو سکی۔ 

ڈاکٹر محمد خان نے بتایا کہ ’ان لاشوں کے جسم کے مختلف اعضا لائے گئے تھے۔ کسی کا سر نہیں تھا اور کسی کے ہاتھ پاؤں لائے گئے جس کو پولیس کے حوالے کر کے امانتاً دفن کر دیا گیا لیکن اعضا کے نمونے ڈین اے ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکے کی جگہ سے 70 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا تھا جن میں سے 39 کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ باقی زخمی ہسپتال کے مختلف وارڈز میں زیر علاج ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان