شفاف انتخابات کے لیے آرٹیکل 62 کا خاتمہ ضروری ہے

اس بات کا تعین کون کرے گا کہ امیدوار کا کردار اچھا ہے یا برا؟ کیا امیدوار کو پولیس سٹیشن سے اچھے کردار کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہیے یا کوئی اور ادارہ موجود ہے جہاں سے یہ سند جاری ہوتی ہے کہ امیدوار اچھے کردار کا حامل ہے یا نہیں؟

16 اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخاب کے دوران ایک خاتون ووٹر پولنگ سٹیشن میں اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں (اے ایف پی)

اگر ہم واقعی شفاف انتخابات چاہتے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس کے لیے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کا خاتمہ یا اس میں بامعنی ترمیم بہت ضروری ہے۔

یاد رہے کہ شفاف انتخابات کے باب میں یہ پہلا قدم ہو گا، آخری نہیں۔ کیونکہ صرف آئین کا آرٹیکل 62 نہیں، الیکشن ایکٹ کا سارا فلسفہ ہی نظر ثانی کا طالب ہے۔

جب تک یہ ناقص انتخابی قوانین موجود ہیں، انتخابی عمل سے کوئی خیر بر آمد نہیں ہو سکتی۔ یہ قوانین بحران اور انتشار پیدا تو کر سکتے ہیں، ختم نہیں کر سکتے۔

آرٹیکل 62 میں امیدوار کی اہلیت کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔ امیدوار اچھے کردار(Good Character) کا مالک ہو۔

2۔ اس کی عمومی شہرت ایک ایسے شخص کی نہ ہو، جو احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہو۔

3۔ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم (Adequate Knowledge) رکھتا ہو۔

4۔ اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ہو۔

5۔ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔

6۔ سمجھ دار (Sagacious) ہو۔

7۔ پارسا (Righteous) ہو۔

8۔ فاسق نہ ہو، (Non-Profligate ) ہو۔

9۔ ایماندار (Honest) ہو۔

10۔  امین ہو۔

آئین میں امیدوار کی اہلیت کی جو شرائط دی گئی ہیں، ان کی شرح بیان نہیں کی گئی۔ اصطلاحات تو استعمال کر لی گئی ییں لیکن کہیں وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا مطلب کیا ہو گا۔

یہ تو کہہ دیا گیا کہ امیدوار اچھے کردار(Good Character) کا مالک ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اچھے کردار سے کیا مراد ہے؟

اس بات کا تعین کون کرے گا کہ امیدوار کا کردار اچھا ہے یا برا؟ کیا امیدوار کو پولیس سٹیشن سے اچھے کردار کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہیے یا کوئی اور ادارہ موجود ہے جہاں سے یہ سند جاری ہوتی ہے کہ امیدوار اچھے کردار کا حامل ہے یا نہیں؟

انتخابات میں اگر کوئی شخص کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا یہ اس کے اچھے کردار پر عوامی شہادت سمجھی جا سکتی ہے یا خلق خدا کی اس گواہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورامیدوار کو الگ سے یہ ثبوت ڈھونڈ کر لانا ہو گا کہ وہ اچھے کردار کا حامل ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ حصول اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں، کسی کے اچھے کردار پر حلقے میں اتفاق رائے پایا جا سکے؟

اسی طرح یہ تو طے پایا کہ امیدوار کی عمومی شہرت ایک ایسے شخص کی نہ ہو، جو احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہو لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عمومی شہرت سے کیا مراد ہو گی؟

وہ کون سا پیمانہ ہو گا، جس سے کسی کی عمومی شہرت کو جانچا جائے گا؟ کتنے افراد کی گواہی عمومی شہرت کا تعین کرے گی؟

فرض کریں کسی حلقے کے دو ہزار ووٹر الیکشن کمیشن کو یا ریٹرننگ افسر کو تحریری طور پر اطلاع کر دیں کہ فلاں امیدوار احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہے تو کیا یہ گواہی یا بیان عمومی شہرت تصور کیا جائے گا اور اس امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیز یہ کہ قانون کا تعلق عمومی شہرت سے ہوتا ہے یا امر واقعہ سے؟ عمومی شہرت کی بنیاد پر ہی اگر فیصلہ کرنا ہے تو اہل سیاست ایک دوسرے کی بابت جو کچھ کہتے پھرتے ہیں اس کے بعد کس کی عمومی شہرت ایسی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکے؟

یہ شرط تو رکھ دی گئی کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم (Adequate Knowledge) رکھتا ہو لیکن کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ خاطر خواہ علم کا مطلب کیا ہو گا؟

اسلام کا کتنا علم، خاطر خواہ علم کہلائے گا؟ کہیں کوئی نصاب مقرر نہیں کیا گیا کہ کوئی امتحان لیا جاتا اور پھر طے کر لیا جاتا کہ فلاں امیدوار اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے یا نہیں۔

 کوئی اصول وضع نہیں کیا گیا جس کی بنیاد پر تعین کیا جا سکے کہ امیدوار ان اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے یا نہیں۔

حتیٰ کہ لفظ خاطر خواہ کے معنی بھی بیان نہیں کیے گئے۔ اب یہ تعین کون کرے گا، کیسے کرے گا اور کس بنیاد پر کرے گا کہ کس امیدوار کا اسلامی تعلیمات کا علم خاطر خواہ ہے یا نہیں؟

اسی طرح یہ تو کہہ دیا گیا کہ سمجھ دار (Sagacious) ہو، پارسا (Righteous) ہو اور فاسق نہ ہو، (Non-Profligate) ہو لیکن یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ ان اصطلاحات کے معنی کیا ہوں گے؟

جب قانون ہی واضح نہیں تو اس قانون کا اطلاق کیسے ہو گا؟ یعنی جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل شروع ہو گا تو کیسے معلوم ہو گا کہ کوئی امیدوار اچھے کردار کا مالک ہے یا نہیں، دین کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے کہ نہیں، فاسق تو نہیں اور سمجھ دار، پارسا اور امین ہے یا نہیں؟

کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی پیمانہ ہے جس سے کسی امیدوار کی یہ اہلیت جانچی جا سکے؟ کیا کوئی نصاب یا سوالنامہ موجود ہے؟

کیا الیکشن کمیشن ہمیں بتا سکتا ہے کہ ریٹرننگ افسران جب کسی امیدوار کی اہلیت کو ان اصولوں پر جانچتے ہیں تو ان کے پاس اس جانچ کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ کوئی مربوط طریقہ ہے تو بتا دیجیے؟

یعنی انتخابی عمل کے پہلے مرحلے میں ہی قانون اور اس کا اطلاق دونوں غیر واضح ہیں۔

اگر آئین اور اس کے اطلاق میں یہ ابہام ہے تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آگے الیکشن ایکٹ میں جو مقامات آہ و فغاں ہیں، ان کا عالم کیا ہو گا!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ