گیان واپی مسجد تنازع: انڈین سپریم کورٹ نے سروے سے روک دیا

انڈیا کی سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کیس میں وارانسی کی ضلعی عدالت کا حکم 26 جولائی کی شام پانچ بجے تک معطل کرتے ہوئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی ٹیم کو سروے اور کسی قسم کی کھدائی سے روک دیا ہے۔

20 مئی 2022 کو انڈین ریاست اترپردیش کے ضلع وارانسی کی گیان واپی مسجد میں مسلمان جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہوئے جبکہ پولیس اہلکار مسجد کے باہر تعینات ہیں (سنجے کنوجیہ/ اے ایف پی)

انڈیا کی سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کیس میں وارانسی کی ضلعی عدالت کا حکم 26 جولائی کی شام پانچ بجے تک معطل کرتے ہوئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی ٹیم کو سروے اور کسی قسم کی کھدائی سے روک دیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سپریم کورٹ بینچ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے الہ آباد ہائی کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ 26 جولائی کو اس کیس کی سماعت یقینی بنائی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش حکومت کے نمائندہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ’اے ایس آئی ٹیم کو مطلع کریں کہ اس جگہ پر کوئی کام یا کھدائی نہیں ہونی چاہیے۔‘

بینچ نے کہا: ’ہم اس (درخواست) کی سماعت آج دوپہر دو بجے دوبارہ کریں گے۔ فی الحال جگہ کا سٹیٹس برقرار رہنا چاہیے، جب تک ہم اسے سن نہیں لیتے اس وقت تک کوئی کھدائی یا مداخلت نہ کی جائے۔‘

مسجد کا سائنسی سروے

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی ایک ٹیم وارانسی کی ضلعی عدالت کے حکم پر ریاست اتر پردیش کے ضلع وارانسی میں پیر کی صبح گیان واپی مسجد کمپلیکس کے سائنسی سروے کے لیے پہنچی تھی۔

انڈین ویب سائٹ ہندوستان ٹائمز کے مطابق گذشتہ برس 16 مئی کو کاشی وشوناتھ مندر کے بغل میں واقع اس مسجد کے سروے کے دوران ایک پرانی تعمیر ظاہر ہوئی تھی، جس کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ ’شیو لنگ‘ ہے اور مسلمان اسے ’فوارہ‘ کہتے ہیں۔

ہندوؤں کا دعوی تھا کہ یہ مسجد پہلے سے موجود ہندو مندر پر تعمیر کی گئی تھی۔

جس کے بعد پانچ ہندو خواتین کی جانب سے وارانسی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی کہ پوری گیان واپی مسجد کے احاطے کا ’سائنسی سروے‘ کرنے کی ہدایت کی جائے۔

دوسری جانب وارانسی کی ضلعی عدالت کی جانب سے سروے کی اجازت کے خلاف مسجد انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

اتوار کو اے ایس آئی کی ٹیم تمام ضروری سامان کے ساتھ وارانسی پہنچی تھی۔

انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں یوپی پولیس کی ایک ٹیم کو گیان واپی مسجد کمپلیکس میں داخل ہوتے دیکھا گیا۔

سروے ٹیم تقریباً 40 ارکان پر مشتمل تھی، جن میں اے ایس آئی کے افسران، چار ہندو خواتین مدعی، ان کے وکیل اور  گیان واپی مسجد میجنمنٹ کمیٹی کے وکلا شامل ہیں، تاہم ’انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی‘ نے اس سروے میں حصہ نہیں لیا۔

کمیٹی کے جوائنٹ سیکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا: ’ہم نے اے ایس آئی سروے کا بائیکاٹ کیا ہے۔ اے ایس آئی سروے کے دوران نہ تو ہم وہاں (گیان واپی مسجد میں) موجود ہیں اور نہ ہی ہمارے وکیل۔ ہم اس میں حصہ نہیں لے رہے۔‘

وارانسی کی عدالت نے کیا کہا؟

جمعے کو وارانسی کی ضلعی عدالت نے اے ایس آئی کے ذریعے گیان واپی مسجد کا وسیع پیمانے پر سروے کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا مسجد پہلے سے موجود ہندو مندر پر تعمیر کی گئی یا نہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ ’اصل حقائق‘ جاننے کے لیے سائنسی تحقیقات ’ضروری‘ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم عدالت نے اس حصے کو سروے سے باہر رکھنے کا حکم دیا، جو مئی 2022 میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سے سیل ہے۔

سیل کیا گیا علاقہ وہ ہے، جہاں ہندوؤں کا اصرار ہے کہ شیو لنگ ملا جبکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فوارے کا حصہ ہے۔

وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ ایس راجلنگم نے کہا: ’اے ایس آئی سروے پیر سے شروع ہوگا۔ اس کیس کے متعلق مدعی اور مدعا علیہان سمیت سبھی فریقوں کو اس بارے میں مطلع کردیا گیا ہے۔‘

گیان واپی مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ نے کیا کہا؟

قبل ازیں سپریم کورٹ نے ایک دعوے کے مطابق ’شیولنگ‘ کے گرد جگہ کی حفاظت جب کہ ایک اور عدالت نے کمپلیکس کے ویڈیو سروے کا حکم دیا تھا۔

مسجد انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ ڈھانچہ ’وضو خانے‘ میں پانی کے فوارے کے میکانزم کا حصہ ہے، جہاں نماز ادا کرنے سے پہلے وضو کیا جاتا ہے۔

نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی رپورٹ کے مطابق ایک موقعے پر مسجد کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے دلیل دی کہ کاشی وشوناتھ گیان واپی مسجد کیس قابل سماعت نہیں ہے اور دعویٰ کیا کہ اس سے عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یہ قانون 15 اگست 1947 کے بعد کسی بھی عبادت گاہ کی حیثیت تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے۔

تاہم، بابری مسجد کیس میں اس قانون  کا اطلاق نہیں کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا