نگران وزیر اعظم کے لیے کوئی نام شارٹ لسٹ نہیں کیا: اتحادی جماعتیں

حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے کہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے معاملے پر ان کی ٹیمیں اگلے ہفتے ملاقات کریں گی۔

آٹھ مارچ 2022 کی اس فائل تصویر میں حکمران اتحاد کے رہنما شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی اتحادی جماعتوں نے ہفتے کو کہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے ابھی تک کوئی نام شارٹ لسٹ نہیں کیا گیا ہے اور اس معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے اتحادی جماعتوں کی ٹیمیں اگلے ہفتے ملاقات کریں گی۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ اتحادی حکومت کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی ہے جب کہ اکتوبر میں اگلے عام انتخابات شیڈول ہیں۔

آئین کے مطابق نگران وزیراعظم کا تقرر صدر، وزیراعظم اور سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرتے ہیں۔

قانون میں یہ بھی درج ہے کہ اگر قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر اسے تحلیل کر دیا جاتا ہے تو اس کے 60 دن سے کم عرصے میں عام انتخابات کرائے جائیں اور اگر اسمبلی اپنی مدت سے پہلے ہی تحلیل ہو جائے تو تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔

عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں احسن اقبال اور فیصل کریم کنڈی نے نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کسی بھی نام کو حتمی شکل دینے کی تردید کی۔

تاہم کچھ مقامی میڈیا اس کے برعکس ایسی رپورٹس شائع کر رہے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا: ’ابھی تک کسی نام کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔‘

احسن اقبال نگران وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی بنائی گئی کمیٹی کا بھی حصہ ہیں۔

پی پی پی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری فیصل کریم کنڈی نے تصدیق کی کہ ان کی پارٹی کے ساتھ ابھی تک کوئی نام شیئر نہیں کیا گیا ہے اور اس معاملے پر غور کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کی کمیٹیاں اگلے ہفتے ملاقات کریں گی۔

فیصل کریم کنڈی نے عرب نیوز کو بتایا: ’امید ہے کہ ہماری کمیٹی پیر کو مسلم لیگ ن کی کمیٹی سے ملاقات کرے گی تاکہ ممکنہ ناموں پر بات چیت کی جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’ابھی تک ہمارے ساتھ کوئی نام شیئر نہیں کیا گیا ہے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے نگران وزیراعظم پر سیاسی سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

مسلم لیگ ن کی کمیٹی میں اقبال، اسحاق ڈار، ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف شامل ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کی ٹیم میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ اور سید نوید قمر شامل ہیں۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کو ’غیر جانبدار‘ ہونا چاہیے، چاہے وہ سیاست دان ہو یا ٹیکنوکریٹ لیکن انہیں ملک بھر میں آزادانہ اور منصفانہ اور بروقت انتخابات کو یقینی بنانے کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مضبوط ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا: ’ایک شخص جو پہلے ہی کابینہ کا حصہ ہے یا کسی پارٹی میں عہدہ رکھتا ہو وہ موزوں امیدوار نہیں ہو سکتا۔‘

ان کے بقول: ’نگران وزیر اعظم ایسا ہونا چاہیے جس پر اپوزیشن اور حکومت دونوں متفق ہوں اور ان کی غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔‘

اسمبلی کی تحلیل پر انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کا واضح موقف ہے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہییں چاہے یہ 60 دن یا 90 دن میں ہوں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ الائنس کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے بھی اس بات کی توثیق کی کہ ان کی جماعت ’جمعیت علمائے اسلام-فضل‘ (جے یو آئی ایف) یا کسی دوسری اتحادی جماعت کے ساتھ اب تک کوئی نام شیئر نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس ’افواہوں‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔

حافظ حمد اللہ نے عرب نیوز کو بتایا: ’کوئی ایک یا دو جماعتیں نگران وزیر اعظم کے نام کا فیصلہ نہیں کر سکتیں کیوں کہ اس کا فیصلہ تمام  پی ڈی ایم کی تمام 13 جماعتیں اور دیگر اتحادی شراکت دار کریں گے۔‘

حافظ حمد اللہ نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی نام تجویز کر سکتی ہے لیکن حتمی فیصلہ تمام اتحادیوں کے درمیان اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’توقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی کمیٹی پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن سے اگلے چند دنوں میں ملاقات کرے گی تاکہ اس معاملے پر غور کیا جا سکے اور اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ کا بھی فیصلہ کیا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست