’تم اک گورکھ دھندہ ہو‘ کے خالق ناز خیالوی

زندگی کی مشکلات سے جیون کشید کرنے والے شاعر کی داستان حیات۔

ناز خیالوی کا اصل نام محمد صدیق تھا۔ ان پر خدا کی عطا ایسی تھی کہ انہیں شاعر بنا کر دنیا میں ممتاز کردیا۔ (ناز خیالوی فیس بک فین پیج)

کارخانہ قدرت کا نظام اپنا ہی ہے اور وہ نظام کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

وہ جس انسان کو نوازنا چاہتا ہے، اس میں ایسی خوبیاں روز اول سے پیدا کر دیتا ہے جو اس انسان کی شخصیت کا ماضی بتانے کے لیے ضرورت بن جاتی ہیں۔

آج ایک ایسی ہی شخصیت کا تذکرہ زیر قلم لایا جا رہا ہے، جن پر خدا کی عطا ایسی تھی کہ انہیں شاعر بنا کر دنیا میں ممتاز کردیا۔

ان پہ اترنے والے الفاظ و خیالات ان پہ ناز کیا کرتے تھے۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ جب مزدور شاعر احسان دانش کی دوراندیش نگاہ ان پر پڑی تو انہوں نے قدرت کی اس خاص عطا کو پہچان لیا اور اس شاعر کو ’ناز‘ کا تخلص بخشا۔ پھر وہ شاعری کے کاندھے پر سوار ہو کر ناز خیالوی کے نام سے ممتاز ہوگئے۔

ناز خیالوی کا اصل نام محمد صدیق تھا۔ وہ چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ 1947 میں تاندلیاں والہ کے گاؤں چک نمبر 394 گ۔ب میں پیدا ہوئے۔

اس گاؤں میں صوفی ازم پہ یقین رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے ’جھوک خیالی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی گاؤں سے نسبت کو اپنے نام کا حصہ بنا کر وہ صدیق خیالوی کہلاتے رہے۔

ان کے سگے بھتیجے شاہد خیالوی، جو ان دنوں دبئی میں مقیم ہیں، بتاتے ہیں کہ ’چچا گھر میں سب سے چھوٹے تھے اور گھر میں انہیں ناز و نعم سے پالا گیا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی لیکن روحانی علوم سے وابستگی کے باعث انہیں عالم فاضل بھی کہا جاتا تھا۔

’سیلانی طبعیت کے باعث وہ مختلف شہروں میں ہونے والی ادبی تقریبات میں شرکت کرتے رہتے۔ لاہور میں مزدور شاعر احسان دانش سے ملاقات نے ان کی زندگی کو بدل دیا۔

’انہوں نے احسان دانش کی شاگردی اختیار کر لی اور ان کے حکم پر اپنا ادبی نام صدیق خیالوی سے بدل کر’ناز خیالوی‘ رکھ لیا۔‘

ناز خیالوی کے بارے میں معروف محقق تنویر شاہد محمد زئی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’ناز خیالوی زندگی کی محرومیوں سے ابھرنے والے شاعر تھے۔ بچپن میں والد کی سختی اور والد کی وفات کے بعد کچھ بھائیوں کی نظر اندازی نے ان کے اندر احساس محرومی پیدا کردیا تھا اور وہ بھائیوں کے بارے میں سخت گیر موقف رکھتے تھے۔

’ناز خیالوی کے بہنوئی محمد امین، جو سمندری میں مقیم تھے، والدین کی وفات کے بعد ان کے حالات دیکھتے ہوئے اپنے پاس لے گئے اور تعلیم دلوائی۔ یہیں سے ان کے اندر مطالعے اور لکھت کا شوق پیدا ہوا اور سید عبدالستار سے اصلاح لی۔

شاہد بتاتے ہیں کہ ’ناز خیالوی کے دادا عبد الکریم اور والد صاحب فارسی اور پنجابی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ پنجابی دوہے ان کی شناخت تھی، مگر ناز خیالوی میں ادب کی طرف رحجان کی وجہ ایک اور بھی تھی۔

’وہ خود بتاتے تھے کہ کلاس ہشتم میں ان کے رشتہ دار مظفر حسین ادیب، جو چنیوٹ کے رہائشی تھے، وہ ان کے ہاں ملنے اور کچھ دن قیام کے لیے آئے تو اپنے مطالعے کے لیے گلستان سعدی کتاب بھی ساتھ لائے۔

’وہ کتاب گلستان سعدی ہی ناز خیالوی کی زندگی میں ادب کے رحجان کا سبب بنی۔ انہوں نے تین دن میں وہ کتاب حفظ کر لی۔‘

ناز خیالوی کی طبعیت روحانی علوم کی طرف زیادہ مائل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ چلہ کشی بھی کرتے رہے۔

ان کے روحانی عقیدت مند انہیں ناز خیالوی قلندری صابری بھی پکارتے تھے اور یہ نام ان کی آخری آرام گاہ کے مرقد پہ لکھا ہوا ہے۔

حیدر علی حیدر ناز خیالوی کے شاگرد ہیں اور بزم ناز خیالوی کے بانی اور صدر بھی۔ وہ ناز خیالوی کے بارے لکھتے ہیں: ’ناز صاحب ایک صوفی منش درویش شاعر تھے۔ انہوں نے تمام عمر ایک ہی کمرے میں چلہ کشی کرتے ہوئے گزار دی۔

’ناز صاحب، صاحب علم، صاحب زبان شاعر تھے، رات گئے تک دوستوں اور شاگردوں کے ساتھ علمی، ادبی، سیاسی، سماجی، دینی، شرعی، تصوف، لطائف وغیرہ پہ گفتگو ہوتی رہتی اور محفل کے سامعین ہمہ تن گوش ہوکر سنتے رہتے۔‘

ناز خیالوی کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی۔ ان کے بھتیجے شاہد خیالوی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے والد نور محمد نے خاندان میں ناز خیالوی کی شادی کی مگر شادی کے چند ماہ بعد ناز صاحب نے بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔

’ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سیلانی طبعیت کے باعث بیوی کو وقت نہیں دے سکتے، وہ کسی عورت کی زندگی خراب نہیں کر سکتے، اس لیے انہیں طلاق دے دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد ناز خیالوی کے ایک دوست عارف بخاری نے ایک اور خاتون سے نکاح کروایا، مگر رخصتی سے قبل ہی علیحدگی ہو گئی۔

ناز خیالوی کی شاعری عام آدمی نے پڑھنے کی بجائے زیادہ تر گلوکاروں کی آواز میں سنی ہے۔

ناز خیالوی صاحب کی شاعری میں موسیقیت غالب نظر آتی ہے، اردو کے فلو کے ساتھ بہنے کی بے بہا صلاحیت موجود ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا ریڈیو سے وابستہ ہونا بھی ہے۔

انہوں نے غالباً 1982 میں ریڈیو پاکستان فیصل آباد سے وابستگی اختیار کی اور کنٹریکٹ پر بطور پروگرام کمپیئر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی میزبانی میں شروع ہونے والے پنجابی زبان کے پروگرام ’ساندل دھرتی‘ میں کسانوں کے مسائل پر بات چیت ہوتی اور موسیقی پیش کی جاتی ۔

وہ اس قدر مقبول پروگرام تھا کہ انہیں 2000 میں ایکسی لینس ریڈیو کمپیئرنگ ایوارڈ دیا گیا۔ یہی پروگرام ان کا زیادہ تر معاش کا ذریعہ رہا۔

آپ ناز خیالوی کی شاعری کو پڑھیں یا سنیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کیسے کیسے مضامین اس نابغہ روزگار شخصیت کے دماغ پر اترے۔

آپ ان کی اردو نظم ’تم اک گورکھ دھندہ ہو ‘ کو ہی سن لیں۔ اس نظم کی شاعری آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گی۔ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ اپنی جگہ مگر اس نظم میں موجود اپنے رب سے کلامی اس سے بھی آگے کی بات لگے گی۔

اسی نظم نے ناز خیالوی کو بام عروج بخشا اور نصرت فتح علی خان کی گائیکی کو بھی چار چاند لگا دیے۔

نصرت فتح علی خان نے بعد ازاں ان کی ایک اور پنجابی غزل  ’دل نوں سوچ تے وچار بڑے نیں‘ بھی گائی۔ اس کے بعد عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی گائیکی میں سامنے آنے والے گیت کچھ یہ ہیں:

’آنکھ میں نقشے جنت کے پھرنے لگے‘

’زندگی جب سے شرابی ہو گئی‘

’بن تیرے آواز یوں دل سے آتی ہے‘

’جان توں مینوں سی پیارا کی پتہ او کونڑ سی‘

’ساڈا نکا جیا ڈھولا ‘

’صبح اساں پینڑی ہے تے شام اساں پینڑی ہے ‘

’اج میرے سجنڑاں ہانڑ دیاں مکھ موڑیا ہے‘

’ کہہ رہا ہے ہر کوئی پیار کا انجام ہے‘

’پیش کی تھی پیار کی سوغات بھی‘

’تو کتنے درد اپنے ساتھ لے کر یاد آتا ہے‘

’رہا میں زندگی بھر پوری کرتا ہر خوشی تیری‘

یہ گیت سرائیکی وسیب سمیت عالم گیر شہرت کا سبب بنے، مگر ناز خیالوی شہرت سے کوسوں دور تھے۔ شہرت ان کا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔

ان کی شاعری میں تصوف اور مزاحمت کا رنگ نمایاں رہا۔ ان کی زندگی میں پنجابی کلام پر مبنی کتاب ’سائیاں وے‘ شائع ہوئی، پھر ان کی اردو شاعری کی کتاب ’لہو کے پھول‘ شائع ہوئی۔

ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے شاہد اور شاگرد جاوید اقبال زاہد نے ان کا غیر مطبوعہ کلام شائع کرایا، جس کا نام ’تم اک گورکھ دھندہ ہو‘ تھا۔

ناز خیالوی 12 دسمبر، 2010 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے نام پر قائم کی گئی بزم ناز خیالوی کے زیر اہتمام ہر سال ان کی برسی پر محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

•       نمونہ کلام

(ناز خیالوی کا پنجابی کلام)

رو کے تکیا ای ساڈے ولّے خیر تے ہے۔

مارے نی اج تیر اولّے خیر تے ہے

خیر تے اے آج مسجد چپ چپیتی اے

خالی خالی ہین مسلے خیر تے ہے

ساڈی دھوڑ دھما کے ساری دنیا تے

ھن پچھدے نے یار نگلے خیر تے ہے۔

دل نے چپاں انج کدی نئیں وٹیاں سن

خیر ہووے آج اس محلے خیر تے ہے

کتھے مندری تے نئیں آ گئی ہتھ وچ سونے دی

لاہ چھڈے جے پیار دے چھلے خیر تے ہے

سونہہ کھاندے سو ناز کدی نا وچھڑن دی

اج بیٹھے ہو کلم کلے خیر تے ہے


ساڈے ناویں درد وِلائت کیتی اے

سجناں یاراں بڑی عنایت کیتی اے

سوچ سے سہی تُوں کیہڑا صدمہ دتّا نئیں

دس تے سہی میں کدی شکایت کیتی اے؟

(اردو نمونہ کلام)

گھر بھی سونا ہے میری زیست کے آنگن کی طرح

لوٹ کر وقت نہ آیا میرے بچپن کی طرح

گردش وقت کے روندے ہوئے انسانوں کا

کوئی مصرف نہیں ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح

مجھ کو غربت نے ڈسا اس کو ہوس مار گئی

بک گیا وہ بھی بہرحال میرے فن کی طرح

آپ چھم سے جو تصور میں چلے آئے کبھی

دل دھڑکنے لگا بجتی ہوئی جھانجن کی طرح

کچھ میرا ذوق سماعت بھی بہک جاتا ہے

کچھ تیرے پاؤں کی آہٹ بھی ہے دھڑکن کی طرح

کر کے گھائل مجھے اس کا بھی برا حال ہوا

اس کی زلفیں بھی نہ سلجھیں میری الجھن کی طرح

جانے کیا بات ہے جلتا ہے حسد کرتا ہے

غم دنیا، غم محبوب سے سوکن کی طرح

برق گرنے کا جہاں ناز بہت خطرہ تھا

ہم نے ڈالی اسی ڈالی پہ نشیمن کی طرح


پھیر لیں یاروں نے آنکھیں بخت ڈھل جانے کے بعد

تتلیاں آتی نہیں پھولوں پہ، مرجھانے کے بعد

باعثِ مرگِ اَنا میری یہی پستی بنی

خود کو قاتل لگ رہا ہوں ہاتھ پھیلانے کے بعد

باغ میں ٹھمکے لگاتی پھرتی ہے فصلِ بہار

سرخ جھمکے نوجواں شاخوں کو پہنانے کے بعد

کر دیا دل لے کے اس نے مجھ کو پابندِ وفا

قید بھی گویا سنا دی اس نے جرمانے کے بعد

شہر کے ماحول میں بھی سانپ سو قسموں کے ہیں

جوگیو! پھیرا ادھر بھی ایک ویرانے کے بعد

چھو رہے تھے ظالموں کے سر مرے پیروں کے ساتھ

کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد

نازؔ میں خود کو نجانے کیوں برہنہ سا لگا

آرزو کو لفظ کی پوشاک پہنانے کے بعد


اتنی شدت سے تو برسات بھی کم کم برسے

جس طرح آنکھ تیری یاد میں چھم چھم برسے

منتیں کون کرے ایک گھروندے کے لیے

کہہ دو بادل سے برستا ہے تو جم جم برسے

‏قطرہ قطرہ ہمیں ترسائے نہ کم کم برسے

اُس نے گر ہم پہ برسنا ہے، چھما چھم برسے

تُو نے جَھیلی ہے کبھی ایسی اذیّت جس میں

لبِ خاموش ہنسے، دیدۂ پُرنم برسے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ