’کوہ پیماؤں کی لائف لائن‘: گمنامی میں رہنے والے کے ٹو کے پورٹر

یہ پورٹرز کوہ پیماؤں کے لیے خیمے اور مختلف قسم کی اشیا اور سامان ڈھونے کا مشکل کام کرتے ہیں اور چار ماہ کے موسم گرما میں ہر سفر میں 30 سے 40 ہزار روپے تک کماتے ہیں، جو مضبوط ہائیکنگ ٹراؤزر کی قیمت سے بھی کم ہے۔

آسمان کو چھوتے پہاڑوں کے دامن میں پاکستانی پورٹرز کا الگ تھلگ قافلہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان پورٹروں نے چوٹی سر کرنے کا ارادہ رکھنے والے کوہ پیماؤں کے لیے زندہ مرغیاں اور لان میں رکھنے والا فرنیچر اٹھا رکھا ہے۔

یہ تقریباً 12 دن کا سفر ہے۔ جس میں ہر پورٹر تقریباً دو لاکھ 70 ہزار قدم اٹھاتا ہے۔ انہوں نے پلاسٹک کے جوتے پہن رکھے ہیں، جب کہ سر پر رنگین پگڑیاں ہیں۔ وہ تیندوے کے پرنٹ والے پاجاموں میں ہیں۔ وہ گلیشیئر پر چڑھ رہے ہیں۔ یہاں سے دنیا کا سب سے دلکش منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی چوٹی ہے، جو 8611 میٹر (28251 فٹ) بلند ہے۔

پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت انہیں یہ خطرہ مول لینے پر مجبور کرتی ہے، جس میں بعض اوقات کچھ ہاتھ بھی نہیں لگتا۔ یہ ویرانہ دھڑا دھڑ تعمیر ہوتی سڑکوں کی وجہ سے سکڑ رہا ہے، جن کا مقصد کم محنت کے ساتھ زیادہ محفوظ سفر ہے۔ پہاڑ ان کی روحوں کے ساتھ رومانس کرتے ہیں لیکن پہاڑی چوٹیاں اور گھاٹیاں ان کے جسموں کے لیے سزا ہیں۔

پہلی بار کے ٹو کی چوٹی کے سر کیے جانے کے سات دہائیوں بعد، اتنی زیادہ بلندی پر جانے والے لوگوں کی مشکل زندگی ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافیوں کے ہمراہ ایک ٹور گروپ کے لیے 180 انڈوں کا ڈبہ لے جانے کی ذمہ داری نبھانے والے 28 سالہ یاسین ملک کا کہنا ہے کہ ’مجھے پہاڑوں سے محبت ہے۔ میرے دادا، ماموں، والد سبھی یہی کام کرتے تھے۔ اب میری باری ہے۔‘

تاہم وہ ایک ہی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ روایت نوجوان نسل کو منتقل نہیں کی جائے گی۔ ان کے بقول: ’میں مرنے تک وزن اٹھاتا رہوں گا لیکن میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔‘

مختلف دنیائیں
ٹور آپریٹرز عام طور پر پاکستان کے شمال مشرقی گلگت بلتستان کے علاقے سکولے سے شروع ہونے والے اس سفر کے لیے دو سے سات ہزار ڈالر کے درمیان کا معاوضہ لیتے ہیں۔ جہاں جیپیں اپنا اپنا ہچکولے کھاتا سفر ختم کرتی ہیں۔ یہاں دو طرح کے مسافر دکھائی دیتے ہیں، ایک جنہوں نے تکیے اور چھتریوں جیسا سامان اٹھا رکھا ہے اور دوسرے وہ سخت جان لوگ جو کوہ پیما ہیں۔

پورٹرز خیمے اور مختلف قسم کے اشیا اور سامان ڈھونے کا مشکل کام کرتے ہیں۔ چار ماہ کے موسم گرما میں ہر سفر میں 30 ہزار سے 40 ہزار روپے (105 سے 140 ڈالر) کماتے ہیں، جو مضبوط ہائیکنگ ٹراؤزر کی قیمت سے بھی کم ہے، جس کی سفارش کوئی کمپنی اپنے گاہکوں کو پہننے کے لیے کرتی ہے۔

گذشتہ ایک سال کے دوران اس معمولی اجرت کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اور جولائی میں افراط زر کی شرح 28 فیصد تھی کیوں کہ آئی ایم ایف کی مداخلت سے قبل پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔

42 سالہ پورٹر سخاوت علی نے کہا کہ ’اب اس کام سے مجھے گھریلو ضروریات کا خرچ اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ میرے پاس یہاں آنے اور سخت محنت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

لیکن جب وہ پہاڑوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے ہر ایک کے مختلف رنگ ہوتے ہیں جس سے مجھے مختلف دنیاؤں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘

پورٹرز میں نوجوانوں سے لے کر پنشن کے قابل عمر تک شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دو ہزار میٹر کی بلندی تک 35 کلو گرام تک وزن اٹھاتے ہیں، جس کے لیے زیادہ تر نیلے رنگ کے کیمیکل سٹوریج کرنے والے ڈرم اور دھاتی بکس شامل ہوتے ہیں۔

بیس کیمپ تک پیدل سفر کرنے والوں کی رفتار سست ہوتی ہے۔ وہ پکنک کے لیے رکتے بھی ہیں۔ پورٹرز پلاسٹک کے خیموں کے نیچے رات گزارنے کے بعد صبح سورج نکلتے ہی روٹی اور چائے کے ساتھ ناشتہ کرتے ہیں۔

خچر بھی سامان کا ایک بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔ ان کی گلی سڑی لاشیں آدھی بنی پگڈنڈیوں پر پڑی ملتی ہیں۔

پورٹر خادم حسین کہتے ہیں کہ ’کبھی سردی ہوتی ہے، کبھی بارش ہوتی ہے، کبھی موسم سخت ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

65 سالہ پورٹر کا کہنا تھا کہ ’نوجوانی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا تھا، کسی بھی چیز سے کوئی خوف نہیں آتا۔ میری عمر اب وہ نہیں ہے۔ میری عمر گزر چکی ہے۔‘

بلندی پر مصنوعی پھل
الپائن کلب آف پاکستان کے صدر ابو ظفر صادق کے مطابق آج کل کے ٹو بیس کیمپ میں پلاسٹک کے مصنوعی پھلوں کے پیالے، شراب کے گلاس اور آرائشی روشنیاں پائی جاتی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ’وحشی پہاڑ‘ کو تجارتی قوتوں نے پورٹرز کی پیٹھ پر سوار ہو کر قابو میں لے لیا ہے۔ یہ پورٹر کوہ پیماؤں کی لائف لائن ہیں۔

لیکن یہ چھوٹی چھوٹی آسائشیں پورٹروں تک نہیں پہنچتیں جنہیں دیسی علاج، سر پر لگنے والے ٹارچز اور موبائل فون پاور بینکوں کے ذریعے سیاحوں کو راغب کرنا پڑتا ہے۔

وادیوں میں اور برف میں دھماکوں کے ذریعے نئے راستے بنائے جا رہے ہیں جس سے پورٹروں کی زندگی آسان اور محفوظ بن سکتی ہے۔ لیکن پورٹرز یہ سوچ کر بے چین ہیں کہ اس عمل سے ان کی مزدوری کے امکانات پر کیا اثر پڑے گا؟

بالتورو گلیشیئر پر اردوکاس کا مقام جو عقاب کے گھونسلے کی طرح بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ برف اور پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہاں ایک تختی لگی ہوئی جس پر سیاحت کی خدمت کے الفاظ درج ہیں۔ یہ تختی ان پورٹروں کو خراج عقیدت پیش کرنے لیے لیے لگائی گئی ہے جنہوں نے 2011 میں جان گنوائی۔

یہاں پورٹرز جشن منانے کے لیے گانے اور رقص کا اہتمام کرتے ہیں جس پر وہ جیری کین کو ڈھول کی آواز پیدا کرنے کے بجاتے ہیں جس پر رقص ہوتا ہے۔

42 سال ہیڈ پوہرٹر ولی خان کہتے ہیں کہ ’پہاڑوں سے میرا تعلق ایک چھوٹے بچے کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق کی طرح ہے۔

’یہ ایک جنون جیسا ہے۔ ہمارے بہت سے کوہ پیما یہاں برف کے نیچے دب چکے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کسی دن مر جائیں گے، لیکن پھر بھی انہیں جانا تھا۔‘

ولی خان کے مطابق: ’ان کے دل جڑے ہوئے تھے۔ جس طرح آپ کا دل کسی محبوب ہستی کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی