برطانیہ میں ملازمتوں کی تلاش، پاکستانی اور انڈین سرفہرست: رپورٹ

انڈیڈ کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان، انڈیا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ کا شمار ان اہم ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے سب سے زیادہ ملازمتیں تلاش کی گئیں۔

یورپین کارکن جن میں نرسیں، سماجی کارکن اور ٹیچنگ اسسٹنٹس شامل ہیں 20 فروری 2017 کو لندن میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں کہ انہیں بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں رہنے دیا جائے (اے ایف پی / جسٹن تالس)

پاکستان، انڈیا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ برطانیہ میں سب سے زیادہ ملازمتیں تلاش کر رہے ہیں۔

برطانیہ میں گذشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک سے ملازمتوں کی تلاش میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ بریگزٹ کے بعد جزوی طور پر ورک ویزا کے قوانین میں کی جانے والی نرمی کا عکاس ہے۔

جون میں انڈیڈ کی ویب سائٹ پر برطانوی ملازمتیں تلاش کرنے والے 5.5 فیصد افراد ملک سے باہر کے درخواست دہندگان تھے اور یہ ریکارڈ ہے۔

یہ تعدادا ایک سال قبل 4.4 فیصد تھی اور 2017 سے 2019 کے درمیان اوسطا 3.6 فیصد افراد ایسے تھے جو ملک کے باہر سے برطانیہ میں ملازت کے خواہشمند تھے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیڈ کے یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے ریسرچ ڈائریکٹر پاول ایڈرجان کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ غیر یورپی یونین کے درخواست دہندگان کی جانب سے سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ جیسی ملازمتوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور جنوری 2020 میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے سے قبل یورپی کارکنوں کی جانب سے کم ہنر مند ملازمتیں پُر کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔

پاول ایڈرجان نے کہا کہ ’برطانوی حکومت کی نئی امیگریشن پالیسی حسب منشا کام کر رہی ہے۔‘

جون کے دوران برطانیہ میں ملازمتیں تلاش کرنے والوں میں یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے افراد کا حصہ 1.4 فیصد رہا جو بریگزٹ سے قبل کے مقابلے میں قدرے کم ہے جبکہ غیر یورپی یونین ورکرز کی دلچسپی دوگنی ہو کر 4.1 فیصد ہو گئی ہے۔

انڈیڈ کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان، انڈیا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ کا شمار ان اہم ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے سب سے زیادہ ملازمتیں تلاش کی گئیں۔

بینک آف انگلینڈ نے مزدوروں کی کمی پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے کیوں کہ مہنگائی میں حالیہ کمی کے باوجود اجرت میں اضافے کی شرح 20 سے زائد سالوں کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

بریگزٹ کے بعد برطانوی حکومت نے یورپی یونین کے زیادہ تر شہریوں کے برطانیہ جانے کے غیر محدود حق کو مرحلہ وار ختم کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویزا قوانین میں نرمی کرتے ہوئے اب مالکان کو یہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ کسی برطانوی یا یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ورکر کو ملازمت پر رکھنے سے قاصر ہیں، بشرطیکہ وہ ایسی ملازمت کے لیے ہوں جس کی سالانہ آمدن کم از کم 26 ہزار 200 پاؤنڈز (33،431 ڈالر) ہو، جو برطانیہ کی اوسط سالانہ اجرت سے قدرے کم ہے۔

کم تنخواہ والے ملازم ان شعبوں میں ویزا حاصل کرسکتے ہیں جہاں لیبر کی شدید کمی ہے ، زیادہ تر  صحت اور سماجی دیکھ بھال میں۔

لیکن ہاسپٹیلٹی اور مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے کم تنخواہ والے شعبوں میں مالکان اب بیرون ملک سے ملازمین بھرتی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق 2022 میں ریکارڈ چھ لاکھ چھ ہزار افراد کی نقل مکانی کرکے برطانیہ آئے۔

ایڈرجان نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ترقی یافتہ ممالک میں امیگریشن میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سخت لیبر مارکیٹیں اور عمر رسیدہ آبادی ہے۔

انڈیڈ کے مطابق کینیڈا اور آسٹریلیا میں 2019 کے بعد سے غیر ملکیوں کی جانب سے ملازمتوں کی تلاش تقریبا دوگنی ہو کر بالترتیب 10.9 فیصد اور 17.2 فیصد ہو گئی ہے۔

انڈیڈ کے مطابق اس کے برعکس، امریکہ اور یورپی یونین میں ملازمت تلاش کرنے والوں کے اعداد و شمار بالترتیب 3.4 فیصد اور 2.7 فیصد تھے، جو کرونا وبا سے پہلے کے مقابلے میں کم تبدیل ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ