رواں سال کے آغاز میں جب نریندر مودی نے نئی دہلی میں جی20 کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کیا تو انہوں نے دنیا کے چوٹی کے سفارتکاروں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ملکوں کے اختلافات سے ’بالا تر‘ ہوکر ’اتفاق رائے‘ پیدا کریں۔
’ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘ کے انڈیا کے منتخب کردہ نام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ’مشترکہ اور ٹھوس مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کریں۔‘
وزرا خارجہ کا یہ اجلاس بھی انڈیا کے جی20 کے اب تک ہونے والے دیگر وزارتی اجلاسوں کی طرح بغیر کسی مشترکہ بیان کے ختم ہوا تھا۔
اب رواں ہفتے کے اختتام پر وزرائے اعظم اور صدور سربراہی اجلاس کے لیے نئی دہلی روانہ ہو رہے ہیں اور ایسے میں پہلی بار انڈیا کی صدارت میں ہونے والے جی20 اجلاس میں میزبان ملک کو حقیقی امکانات کا سامنا ہے کہ وہ مشترکہ اعلامیے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ایک طرف مغربی ممالک اور دوسری طرف روس اور چین کے اتحادیوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں بظاہر مشکل ترین کام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب سے انڈیا نے جی20 کی صدارت سنبھالی ہے یوکرین کی جنگ پر ان ممالک کے اختلافات پورا سال بڑھے ہی ہیں۔
بہر حال انڈین حکومت نے اس جی20 اجلاس پر بہت زیادہ وقت اور پیسہ لگایا ہے تاکہ وہ ظاہر کر سکے کہ ان کا ملک عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جب کہ مودی خود کو ’وشواگورو‘ کے طور پر پوری ترقی پذیر دنیا کی آواز بننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
نو اور 10 ستمبر کو ہائی سٹیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے دہلی کو سجانے کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ بیوٹیفیکیشن مہم کے ذریعے بدصورت کھلے کچرے کے ڈھیروں اور بجلی کے لٹکتے تاروں کے جالوں، آوارہ کتوں اور بندروں کو عارضی طور پر شہر کے مرکز سے باہر نکال دیا جائے گا اور کچی بستیوں اور گنجان محلوں کے نظارے کو دھندلا دینے کے لیے نئی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔
’بھارت منڈپن‘ کے نام سے ایک وسیع و عریض اور نئے کنوینشن سینٹر دنیا بھر کے معززین اور میڈیا کے وفود کی میزبانی کے لیے تیار ہے جسے 27 ارب روپے کی لاگت سے دارالحکومت کے مرکز میں بنایا گیا ہے۔
بند دروازوں کے پیچھے انڈین حکام مودی کے لیے اب تک کے سب سے بڑے سفارتی چیلنج کی تیاری کر رہے ہیں۔ انڈیا کے وزیر خارجہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں اصرار کیا کہ حکومت اب بھی دہلی اعلامیے پر اتفاق کے لیے پر امید ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس جے شنکر نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ وہ ’بہت پر اعتماد‘ ہیں کہ جی20 کے رکن ممالک کے درمیان ’مشترکہ مفادات کے لیے سربراہی اجلاس کے دوران دنیا کے تمام اہم مسائل کے بارے میں مشترکہ حل اور مشترکہ بیان کے لیے اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج دنیا پہلے سے کہیں زیادہ فکرمند حالت میں ہے۔ ایسی صورت حال میں جی20 کے صدر کو صرف ایک غیر جانبدار ملک نہیں ہونا چاہیے بلکہ قابل احترام ہو۔ وہ ملک آج انڈیا ہے۔‘
جی20 کا آغاز 1999 میں ایشیائی مالیاتی بحران کے نتیجے میں ہوا تھا اور انڈیا کا کہنا ہے کہ رواں سال کا سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ایک بہت بڑا موقع ہے جب عالمی شرح نمو تین فیصد تک گرنے کا امکان ہے اور دنیا کے 50 سے زائد ممالک کو قرضوں کے بحران کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود ولادی میر پوتن کے یوکرین پر حملے کے جیو پولیٹیکل نتائج اقتصادی فورم پر چھائے رہے اور جب تنازعے کی بات آتی ہے تو مشترکہ اعلامیوں کے الفاظ پر اعتراضات نے اب تک اس سال کے تمام جی 20 اجلاسوں اور ورکنگ گروپس کو متاثر کیا ہے۔
مشترکہ بیانات کے بجائے انڈیا ہر تقریب کے بعد ’چیئرمینز سمری‘ جاری کرتا رہا ہے جس میں اجلاس کے دوران ہونے والی گفتگو کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ کار ڈیرک گراسمین کا کہنا ہے کہ اگر اس ہفتے سربراہی اجلاس صرف اسی طرح کی ’چیئرمینز سمری‘ پر ختم ہوتا ہے تو اسے انڈیا کے لیے ایک ’شرمندگی‘ کے طور پر دیکھا جائے گا لیکن شاید ہی یہ حیرت کی بات ہو۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اگر مجموعی طور پر نہیں تو زیادہ تر یہ انڈیا کی ناکامی کے بجائے جی20 فارمیٹ کی ناکامی ہے۔ یہ شاندار ہوگا اگر انڈیا تمام چیلنجوں کے باوجود مشترکہ بیان جاری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ انڈیا واقعی کچھ نتیجہ نکالنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ایک طرح کی شرمندگی ہوگی اگرچہ یہ ایک بہت ہی متوقع شرمندگی ہے (اگر وہ ناکام ہوتے ہیں) جی20 پلیٹ فارم کے لیے۔‘
عالمی سطح پر اختلاف کے مضبوط اشاروں کے باوجود اس فورم کی اتحاد کے حیرت انگیز مظاہرے پیش کرنے کا تاریخ رہی ہے۔
2014 میں آسٹریلیا کے سربراہی اجلاس نے 2014 میں روس کی طرف سے جزیرہ نما کرائمیا کو غیر قانونی طور پر ضم کرنے کے فوراً بعد ایک مشترکہ اعلامیے کا انتظام کیا جس کی مغربی دنیا نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔
اس مشترکہ بیان میں کرائمیا کا ذکر کرنے سے گریز کیا گیا اور یہاں تک کہ پوتن کی تمام رہنماؤں کے ساتھ ایک ’فیملی فوٹو‘ بھی بنی تھی۔
گذشتہ سال انڈونیشیا کی صدارت میں ہونے والی سربراہی کانفرنس غیر معمولی طور پر ایک مشترکہ بیان پر آخری لمحات میں اتفاق رائے پر پہنچی۔ روس کی جانب سے یوکرین کے اہم انفراسٹرکچر پر میزائل گرائے جانے کے باوجود عالمی رہنما عشائیہ کے لیے ایک میز پر بیٹھے۔
صدر پوتن نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور محتاط انداز میں لکھے گئے بالی اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام نہیں بلکہ ’زیادہ تر اراکین‘ نے روس کے یوکرین پر حملے کی شدید مذمت کی۔
انڈیا، جس نے وائٹ ہاؤس کے مطابق گذشتہ سال کی مشترکہ اعلامیے کو تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، یہ امید کر رہا تھا کہ وہ یوکرین کے معاملے پر اراکین کو بالی اعلامیے کی طرح منا لے گا۔
لیکن روس اور چین نے کہا ہے کہ انہوں نے انڈونیشیا میں جس اعلامیے پر دستخط کیے تھے وہ اب قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ یوکرینی فوج کو مسلح کرنے اور تربیت دینے میں مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے زمینی صورت حال کو تبدیل کر دیا ہے۔
مودی حکومت نے تاریخی حلیف روس اور امریکہ اور برطانیہ جیسے مغربی شراکت داروں کی صف بندی میں حصہ نہ لینے کے راستے پر چلنے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے لیکن اگرچہ یہ سستے روسی تیل کی نئی دہلی کی اپنی بڑھتی ہوئی درآمد کو جواز فراہم کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے لیکن یہ کثیرالجہتی فورمز میں جانے کے لیے بہت زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں فارن پالیسی شعبے کے نائب صدر ہرش وی پنت کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ جی20 کا پہلا سربراہی اجلاس ہو سکتا ہے جس کا اختتام مشترکہ اعلامیے کے بغیر ہو۔
’آگے بڑھتے ہوئے کوئی بھی اس کا محتاط اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ غیر معمولی معاملہ نہیں بلکہ معمولی ہے۔‘
ان کے بقول: ’دنیا ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں بڑی طاقت کا مقابلہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ لہذا یہ سمجھنا ٹھیک ہے کہ جی20 اس عمل سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر چین اور مغرب دنیا کو مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں اور یہ معاشی پہلوؤں کو گھیر رہا ہے تو یہ سمجھنا مناسب ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔ یہ یقیناً روس اور مغرب کے بارے میں ہے۔‘
ہرش وی پنت سمجھتے ہیں کہ جی20 کو دوسرے طریقوں سے کامیاب بنانے کے لیے مودی کو سامنے آ کر قیادت کرنی ہوگی۔
جب کہ بہت سارے ممالک کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے انڈیا گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک چیمپئن کے طور پر اپنی جی20 کی وراثت کو یہ کہتے ہوئے داؤ پر لگا رہا ہے کہ وہ ایشیا کے ساتھ ساتھ افریقہ، لاطینی امریکہ اور کیریبین کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی امنگوں کے لیے آواز بننا چاہتا ہے۔
ایک اہم ایجنڈا جسے انڈیا نے آگے بڑھایا ہے وہ افریقی یونین کو گروپ کے مستقل رکن کے طور پر شامل کرنا ہے جیسا یورپی یونین کو اب اس گروپ میں کردار دیا گیا ہے۔
ایکسیٹر یونیورسٹی سے منسلک حمداللہ کے مطابق اگر ایجنڈے کے دیگر آئٹمز پر پیش رفت ہو سکتی ہے تو یہ دوسرے رہنماؤں کے درمیان مودی کی ساکھ کا امتحان ہے کہ آیا وہ مشترکہ اعلامیے کے ساتھ یا اس کے بغیر انڈیا کی صدارت میں سربراہی اجلاس کو کامیاب بنا پاتے ہیں یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’انڈیا کی ترجیح میز پر مشترکہ بات چیت کرنا نہیں ہے بلکہ دہلی سمٹ کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرنا ہے جہاں گلوبل ساؤتھ کے مسائل، سب سے اہم افریقی یونین کی رکنیت، پر تبادلہ خیال ہو سکے۔
ان کے بقول: ’مشترکہ اعلامیہ مودی کے لیے ایک فتح ہو گی جب کہ اس کی عدم موجودگی اسے ایک عام رہنما کے طور پر پیش کرے گی، نہ کہ ایک مسئلہ حل کرنے والے یا گلوبل ساؤتھ کے رہنما کے طور پر۔‘
یوکرین تنازع میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس سال اور 2022 میں انڈونیشیا کے سربراہی اجلاس کے درمیان بڑا فرق چین کا کردار ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ بیجنگ اپنے حریف ملک کی میزبانی میں جی20 کو ناکام ہوتے دیکھ کر خوش ہو گا جس کے ساتھ وہ 2020 سے ایک فعال سرحدی تنازع میں مصروف ہے۔
چین نے اب اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر شی دہلی کا سفر نہیں کریں گے اور ان کی نمائندگی وزیر اعظم لی کی چیانگ کریں گے۔
اس کا مقصد بیجنگ کی شمولیت کو گھٹانا ہے جس کے بارے میں گراسمین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے ایک ’تشویشناک‘ پیغام بھیجا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین اپنے حریف کی سربراہی اجلاس کی میزبانی کو نقصان پہنچانے اور اس طرح عالمی سطح پر ایک رہنما کے طور پر ابھرنے کے لیے دوسرے طریقے تلاش کر سکتا ہے۔
پنت نے ان خدشات کو دہراتے ہوئے کہا کہ چین امریکہ کے بعد سب سے بڑی معاشی قوت ہونے کے درجے کے طور پر اس گروپ کے لیے ایک ’بڑا مسئلہ‘ پیدا کر سکتا ہے۔
’بیجنگ انڈیا کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے یا یہ اس حقیقت سے خوش ہو سکتا ہے کہ وہاں پہلے سے ہی ایک مسئلہ ہے یعنی روس یوکرین جنگ جو اس اجلاس کو بڑی کامیابی سے روک سکتا ہے۔‘
روس نے کچھ ہفتے قبل اس بات کی تصدیق کی تھی کہ صدر پوتن بھی اختتام ہفتہ دہلی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی انڈیا کو امید تھی کہ وہ یوکرین کے توازن کو برقرار رکھنے اور دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دے گا۔
لیکن گراسمین کا استدلال ہے کہ یوکرین کی جنگ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی انڈیا کی پوزیشن تیزی سے ’غیر مستحکم‘ اور باقی دنیا کے لیے مزید نتیجہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر انڈیا ایسے حالات میں سخت موقف اختیار نہیں کرتا ہے جب روس یورپ کے لیے ہٹلر کی طرح ثابت ہو رہا ہے یا جوہری جنگ کی دھمکی دیتا ہے، تو تاریخ انڈیا کو درست فیصلہ نہ لینے پر معاف نہیں کرے گی۔ قومی مفاد کو پہلے رکھنا ٹھیک ہے لیکن جیو پولیٹکل دور میں اقدار کی بنیاد پر فیصلہ اہم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ نئی دہلی آگ سے کھیل رہا ہے۔‘
© The Independent