طورخم بارڈر دو دن میں نہ کھلا تو سرحد پر دھرنا دیں گے: متاثرین کا اعلان

بدھ کی شام ایک عوامی اجلاس ہوا جس میں بارڈر پر فوری دھرنا دینے کی بجائے دو دنوں تک مزید انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

11 ستمبر 2023 کی اس تصویر میں طورخم سرحد پر پارکنگ ایریا میں کھڑے ٹرکوں کا منظر دکھایا گیا ہے۔ (عبدالمجید/ اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے لنڈی کوتل بازار میں بدھ کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم سرحد کی بندش کے خلاف دھرنا دیا گیا جس کے شرکا نے دو روز میں پیدل آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بارڈر نہ کھلنے کی صورت میں طورخم بارڈر کے زیرو پوائنٹ پر احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر طورخم دروازے کو دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد سے بند ہوئے آٹھ دن ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے ضلع خیبر کے لنڈی کوتل بازار میں بدھ 13 ستمبر کی صبح احتجاجی دھرنے کا انعقاد کیا گیا جس میں کسٹم کلیئرنس ایجنٹس، تاجر، مسافر، مزدور، ٹرانسپورٹرز اور سیاسی جماعتوں کے رہنما شامل تھے۔

تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس احتجاجی دھرنے میں شرکا نے دروازہ فوری طور پر نہ کھلنے کی صورت میں بارڈر کے ’زیرو پوائنٹ‘ پر مستقل دھرنے کی دھمکی بھی دی۔

اس موقع پر دھرنے کے شرکا نے بینرز اور پوسٹرز پر امن، اور تجارت کی بات کرتے ہوئے طورخم گیٹ کھولنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم بعد میں بدھ ہی کی شام ایک عوامی اجلاس ہوا جس میں بارڈر پر فوری دھرنا دینے کی بجائے دو دنوں تک مزید انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اجلاس میں شریک طورخم کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے چیئرمین معراج الدین شینواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ’ایک عوامی میٹنگ تھی جس میں طورخم کے ذمہ داران سمیت قبائل، سٹیک ہولڈرز اور متاثرین شامل تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ دو دن یعنی جمعہ تک انتظار کیا جائے، اور اگر جمعہ تک گیٹ نہ کھولا گیا تو پھر تب تک دھرنا دیا جائے گا جب تک طورخم گیٹ کھول نہ دیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فیصلہ یہی ہوا کہ فی الحال انتظار بہتر رہے گا۔ لہذا جمعرات اور جمعہ کو کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔‘

اس سے قبل بدھ ہی کو طورخم ٹرانسپورٹ یونین کے صدر عظیم اللہ شینواری نے سرحد بندش سے ہونے والی مشکلات کا شکوہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گیٹ کی دونوں جانب ایک طرح کی صورت حال ہے۔ حکومتوں کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں لیکن خمیازہ کس کو بھگتنا پڑ رہا ہے؟‘

طورخم کسٹم کلیئرنس ایجنٹ ریاض شینواری کہتے ہیں کہ دونوں جانب کے حکام کو مذاکرات کے ذریعے موجودہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوہے کہا کہ ’امن کے بینرز اس لیے اٹھائے گئے کہ بارڈر پر امن قائم کرنے کے لیے دونوں ممالک کوشش کریں گے تو گیٹ کھلا رہے گا اور تجارت ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور افغانستان کی بارڈر فورسز کے درمیان طورخم سرحد کے مقام پر مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں بارڈر چھ ستمبر کو بند کیا گیا تھا، جس کے باعث سرحد کی دونوں اطراف ہزاروں افراد سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ تجارتی سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک بھی بارڈر کے کھلنے کے منتظر ہیں۔  

طورخم ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق طورخم بارڈر کے دونوں اطراف ایک ہزار سے زیادہ مال بردار ٹرک اور دوسری گاڑیاں کھڑی ہیں، جن میں موجود خورد و نوش کی اشیا خصوصاً پھل اور سبزیاں خراب ہو رہی ہیں۔

لنڈی کوتل کے باچا خان چوک میں ہونے والے احتجاج کے بعد جاری بیان میں شرکا کا کہنا تھا کہ طورخم بارڈر کے دونوں اطراف موجود عام لوگوں اور تاجروں کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ’اس لیے ہم دونوں حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طورخم بارڈر کو پیدل آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے جلد از جلد کھولا جائے۔‘

احتجاجی دھرنا کے دوران شرکا نے دو روز میں طورخم بارڈر پیدل آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے نہ کھلنے کی صورت میں سرحدی پوائنٹ کے زیروپوائینٹ پر کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس، ٹرانسپورٹرز، تاجر، مزدور، سیاسی عمائدین اور عوام ’نہ ختم ہونے والا‘ احتجاجی دھرنا دیں گے، جو طورخم بارڈر کے مستقل کھلنے تک جاری رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان