سکول چلو مہم: ’بنک کرنے والے بچوں کو تھانوں میں والدین سے ملوایا‘

’سکول چلو‘ نامی اس مہم کے تحت اب تک پولیس نے متعدد طلبا کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد والدین کے حوالے کیا ہے۔

ڈی پی او نے بتایا اس اقدام کا مقصد بچوں کی نگرانی اور منشیات کی سرگرمیوں سے بچانا اور ’پولیسنگ کا کمیونٹی پر مبنی ماڈل‘ متعارف کروانا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

حالیہ دنوں اسلام آباد پولیس نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد سکول کے طلبہ پر نظر رکھنا ہے تاکہ وہ سکول کے اوقات کے دوران کلاسیں چھوڑ کر منفی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔

’سکول چلو‘ نامی اس مہم کے تحت اب تک پولیس نے متعدد طلبہ کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد والدین کے حوالے کیا ہے۔

اس مہم کا آغاز کیسے اور کیوں شروع ہوا اور پولیس کو اس حوالے سے کیوں متحرک ہونا پڑا، اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) رورل زون اسلام آباد فاروق امجد نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر یہ سیف سٹی پروجیکٹ کا اقدام ہے۔

انہوں نے بتایا: ’متعدد مرتبہ نگرانی کے دوران سیف سٹی کیمروں کو چیک کیا گیا کہ کئی بچے سکول بنک کرتے ہیں اور بری صحبت میں پڑ سکتے ہیں یا منشیات کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔ اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں جو ان کے یا والدین کے لیے بہتر نہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ کسی بھی طالب علم کو اس حوالے سے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ان کے والدین کو تھانے میں بلا کر ملوایا گیا۔

ڈی پی او نے بتایا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے انسپکٹر جنرل کی خصوصی ہدایات پر اسلام آباد پولیس نے اس اقدام کا آغاز کیا۔

’جہاں جہاں بچے سکول بنک کرتے نظر آتے ہیں، انہیں تھانے لے جا کر ان کے والدین کو بلائیں اور انہیں مشورہ دیں کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور اپنے طور پر ذمہ داری پوری کریں۔‘

ڈی پی او نے بتایا اس اقدام کو شہر کے تمام تھانوں میں لانچ کیا گیا جس کا مقصد بچوں کی نگرانی اور منشیات کی سرگرمیوں سے بچانا اور ’پولیسنگ کا کمیونٹی پر مبنی ماڈل‘ متعارف کروانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس اقدام کے دائرہ کار پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او فاروق امجد نے بتایا اگلے مرحلہ میں کالج کے طلبہ پر بھی دھیان دیا جائے گا لیکن ابتدائی طور پر اس وقت سکول جانے والے بچوں پر فوکس رکھا گیا ہے، کالج کے طلبا کو اس نیٹ میں لایا جائے گا۔سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ اوز) کو یہ ہدایات بھی دی گئیں ہیں کہ، ’آپ نے والدین، اساتذہ اور سکولز کی انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کر کے طلبہ کے سکول بنک کرنے سے متعلق مسائل کو حل کرنا ہے اور بچوں کو بری عادتوں سے بچانا ہے۔‘

اسلام آباد پولیس کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد پولیس نے سکول بنک کرنے والے 105 طلبہ کو تحویل میں لینے کے بعد ان کے والدین یا سرپرست کے حوالے کیا ہے۔

ابتسام جاوید، جو ایک طالبہ کی والدہ ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے اس اقدام کو سراہا۔

ابتسام نے کہا: ’یہ اقدام بچوں کو بری صحبت خصوصاً منشیات سے بچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ سکول کے اوقات میں بچوں کو پڑھنے لکھنے کے لیے سکول جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داری سکولوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

’اگر سکول انتظامیہ پولیس کے ساتھ مل کر یہ کام کریں گے تو بچوں کو پڑھائی کی جانب بھی مائل/راغب کیا جا سکتا ہے۔ اس مہم سے کمیونٹی کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس