سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے بدھ کو سنائے گئے فیصلے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بدھ کو سپریم کورٹ کے 15 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی (پی ٹی وی/ سکرین گریب)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے بدھ کو سنائے گئے فیصلے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر بدھ کو ہونے والی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’بینچوں کی تشکیل کا اختیار سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو تفویض کرنے اور سوموٹو کیسز کے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کے ساتھ ساتھ اپیل کا اختیار بھی درخواست گزاروں کو دے دیا گیا ہے۔‘

تاہم ماضی کے سوموٹو کیسز پر اپیل کے اختیار کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے غیر قانونی قرار دیے دیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری مختصر فیصلے کے مطابق دس، پانچ کی اکثریت سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ایکٹ سے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک نے اختلاف کیا۔
فیصلے کے مطابق مستقبل میں سوموٹو کیسز کے خلاف اپیل کے حق کی شق کو نو، چھ سے منظور کیا گیا۔ اس شق سے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، اور جسٹس شاہد وحید نے اختلاف کیا۔

ماضی کے سوموٹو کیسز کے خلاف اپیل کے حق کو آٹھ، سات سے مسترد کیا گیا۔ اس فیصلے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید اطہر من اللہ، اور جسٹس مسرت ہلالی نے اختلاف کیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بدھ کو 15 رکنی فل کورٹ نے کیس کی بانچویں سماعت کی۔ سماعت کے آخر میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو فیصلہ آج سنا دیں گے اور اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو پیغام بھجوا دیں گے۔‘

اس سے قبل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر چار سماعتیں ہو چکی ہیں۔

فل کورٹ کی پانچویں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’ہمارے سامنے صرف ایک سوال ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئینی ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ غیر آئینی ہوا تو برقرار نہیں رہے گا۔‘

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، پھر 1956 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا۔‘

ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جو کہا جا چکا ہے اس کو نہیں دہراؤں گا۔‘

اس سے قبل دیگر تمام درخواست گزار وکلا گذشتہ چار سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدھ کو ہونے والی سماعت میں کہا کہ ’تلوار کے نیچے گردن ہو تو بھی لوگوں نے کلمہ پڑھا، پڑھ لیا تو بات ختم۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی کی نیت پر کیوں بات کریں، پارلیمان کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’میرا ایک سوال قانون آئینی ہونے اور دوسرا پارلیمان کے اختیار کا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کی شقیں کیسے آئین سے متصادم نہیں ہیں؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے براہ راست اختیار کی ضرورت نہیں ہے؟‘

یہاں چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزاروں پر ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ صرف یہ کہہ دیں کہ درخواست گزار اپنا بوجھ اتارنے میں ناکام رہے۔‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھانے سے متعلق پارلیمان براہ راست قانون سازی کر سکتی ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھا سکتا ہے کم یا ختم نہیں کر سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ سے متعلق پارلیمان کو براہ راست قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔‘

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’یعنی جو آئینی پابندی ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے لیے ہے وہ سپریم کورٹ کے لیے نہیں ہے؟‘

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ حساس معاملہ ہے آپ شاید اس پر بات نہ کرنا چاہیں۔ پارلیمان اپنا دائرہ اختیار نہیں بڑھا سکتی تو عدالت کیسے بڑھا سکتی ہے؟‘

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون سے مشروط ہیں۔ رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔‘

جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ ’آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ ’ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔‘

اٹارنی جنرل جواب دیا کہ ’آرٹیکل 191 قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے، صرف عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔‘ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’اصل سوال ہی عدلیہ کی آزادی کا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’قانون کا ایک حصہ ایکٹ آف پارلیمنٹ دوسرا عدالتی فیصلے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد 17 ستمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا تھا جس پر 18 ستمبر کو پہلی سماعت ہوئی تھی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر تین اکتوبر کو دوسری سماعت ہوئی جبکہ تیسری سماعت نو اکتوبر جبکہ چوتھی دس اکتوبر کو ہوئی تھی۔

دس اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

اس کے بعد 12 اپریل کو سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف چار درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں سے دو درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں۔

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے 13 اپریل کو ایکٹ کو معطل کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود 21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہو کر قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج ازخود نوٹس کا فیصلہ کریں گے۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی ہے اور اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان