سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت ملتوی

ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونی والی سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فریقین کو ہدایت کی کہ وہ اپنے جوابات 25 ستمبر تک جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمے کی ٹیلی ویژن پر لائیو نشر ہونے والی کارروائی کے دوران (پی ٹی وی سکرین گریب)

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پیر کو فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ اس سماعت کو پہلی مرتبہ براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔

پیر کو سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’بینچوں کی تشکیل سے متعلق دونوں سینیئر ججز سے مشاورت کی ہے۔ دونوں سینیئر ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی مجھ سے اتفاق کیا ہے۔‘

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بارے میں ہم آپس میں مشاورت کریں گے کہ بینچ کیسے تشکیل دینا ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت دی جبکہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ ’درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو عدالتی سوالات کے جوابات دینے ہیں۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت تاخیر سے شروع ہونے پر معذرت کی اور بتایا کہ تاخیرکی وجہ یہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔ انہوں نے کہ انہوں نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ ’میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔‘

اس پر درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔

چیف جسٹس نے ایک موقع پر استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں۔ ’کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں تو پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے۔‘

حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیے۔ اٹارنی جنرل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا، ’اس قانون کا صرف ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ’لا‘ کی تعریف میں آتا ہے۔ 1980 میں یہ رولز بنائے گئے تھے، میں آپ کی توجہ آرڈر 11 کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا۔‘

چیف نے استفسار کیا کہ یہ رولز کس نے کب بنائے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے۔

چیف نے استفسار کیا سپریم کورٹ کیا ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا سب چیف جسٹس اور ججز۔۔۔۔ چیف نے بات کاٹتے ہوئے استفسار کیا ’گھر بیٹھے ہوئے۔‘

چیف جسٹس نے وکلا کو فوکس کرنے کی تنبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکس دہندہ ہمیں تنخواہ اس لیے دیتا ہے کہ ہم اس کا فیصلہ کریں اور یہی ہمارا کام ہے۔ آپ بھی مین پوائنٹ پر نہیں آ رہی کھسک رہے ہیں اور وہ بھی مین پوائنٹ پر نہیں آ رہے۔‘

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’میں ایک غلطی کی ہے میں نے آپ کو اس کورٹ کی کوہ ہمالیہ جتنی بڑی غلطی ’دی ریکوڈک کیس‘ کی مثال دی ہے 6.5 ارب ڈالر کیا یہ کافی بڑی غلطی نہیں سمجھنے کے لیے۔‘

قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا کہ اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہوگا؟ اس ایکٹ سے کا نقصان ہو رہا ہے؟ کیا اس قانون سے جرح یا انصاف کا حق لیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ایکٹ سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کی تقسیم ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں نہیں لوں گا، آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد اتوار کو اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا یعنی عدالت عظمٰی کے تمام 15 جج اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

مقدمے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس بارے میں نو درخواستیں ہیں کہا کہ پاکستان بار کونسل درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا پس منظر

28 مارچ، 2023 کو وفاقی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی تھی۔

بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کے بعد صدر عارف علوی کو بھیجا گیا تھا لیکن صدر نے بل پر دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا۔

صدر پاکستان نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘

بعد ازاں 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرنے کے بعد دوبارہ صدر کو دستخط کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔ 

 

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے 21 اپریل کو جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے 13 اپریل کو ہی اس ایکٹ کو معطل کر دیا تھا۔

اپریل میں ہی اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں موقف اپنایا گیا تھا ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔‘

درخواستوں کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔‘

درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ 

’بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل آئین کے ساتھ دھوکہ ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ درخواستیں سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چوہدری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس معاملے پر سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے جبکہ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

بل کا مسودہ

بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔ 

10 اپریل، کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا تھا۔

12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔

تاہم 21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان