غزہ پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر حملے کے منڈلاتے بادل

فی الوقت پوری طاقت کے ساتھ حملہ غزہ کے شہریوں کے سروں پر اس طرح منڈلا رہا ہے جیسے راکٹوں کی مسلسل گولہ باری سے ملبے میں تبدیل ہونے والے گھروں پر گرد و غبار کے گولے۔

14 اکتوبر 2023 کو جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر اسرائیلی حملے کے دوران عمارتوں کے اوپر سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں (اے ایف پی/سید خطیب)

فلسطینی جس خوف سے غزہ شہر سے نقل مکانی کر رہے تھے وہ ہو چکا، سرحدی علاقے کا بیشتر حصہ فضائی حملوں سے تباہ ہو چکا ہے اور اب حماس کے خلاف اسرائیل کے خونریز انتقام کے لیے سٹیج تیار ہو گیا ہے۔

اسرائیلی فورسز نے پہلے ہی غزہ کے اندر حماس کا دفاع پرکھ لیا ہے، علاقے میں پکڑے گئے 120 یا اس سے زیادہ یرغمالیوں کے متعلق انٹیلی جنس اکٹھی کر چکی ہیں اور حراست کے دوران مرنے والوں کی لاشیں واپس لا چکی ہیں۔

فی الوقت پوری طاقت کے ساتھ حملہ غزہ کے شہریوں کے سروں پر اس طرح منڈلا رہا ہے جیسے راکٹوں کی مسلسل گولہ باری سے ملبے میں تبدیل ہونے والے گھروں پر گرد و غبار کے گولے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق ان فضائی حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں میں حماس کی فضائی کارروائیوں کے انچارج اور حالیہ دہشت گرد حملے کے ماسٹر مائنڈ مراد ابو مراد بھی شامل ہیں۔

اموات کی تعداد ہر گھنٹے بڑھ رہی ہے۔ حماس نے تقریباً 1300 اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو مارا۔ غزہ کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے اختتام پر اسرائیل کے جوابی فضائی حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک 2215 سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں، جس سے دنیا میں افراتفری پھیل گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے چھ دنوں میں غزہ میں چھ ہزار بم گرائے ہیں، جو پورے ایک سال میں افغان جنگ کے دوران نیٹو کی طرف سے گرائے جانے والے بموں کی اوسط تعداد کے قریب ہیں۔

اس کے باوجود حماس نے بھی اسی طرح جواب دیا ہے ۔ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران سديروت پر سات راکٹ داغے گئے جس سے محدود نقصان ہوا۔

ہفتے کے آخر میں ہونے والے قتل عام کے بعد شہر کی سڑکوں پر لاشیں پڑی رہیں۔ اسرائیلی شہر کے 30,000 رہائشیوں کو بڑے پیمانے پر کارروائی کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد سديروت کے زیادہ تر باشندے اپنے گھروں میں ہیں اور بہت سے لوگ صدمے کی حالت میں ہیں۔

اس کے بعد کے ایام میں صدمہ غم میں اور پھر غصے میں بدل گیا۔ ان لوگوں میں بھی بدلہ لینے کا مطالبہ بڑھتا گیا جو خود کو فلسطین کے بارے میں لبرل بریج بلڈرز سمجھتے تھے۔

42 سالہ ایتھن، جن کا دوست گذشتہ ہفتے گولی لگ کر مرنے والوں میں شامل تھا، نے کہا، ’اب ہر کوئی سخت گیر ہے۔ جو کچھ ہوا اس کا تجربہ نہیں کیا جا سکتا، ان لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں قتل کر دیا گیا، اور یہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔‘

ایتھن نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوست کا نام لیا جائے کیونکہ حکام اس کے اہل خانہ سے مکمل طور پر رابطہ نہیں کر سکے ہیں۔

مشترکہ سیاسی عقائد رکھنے والے یہ دونوں افراد بن یامین نتن یاہو کی سخت دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوچکے ہیں، جسے وہ آئین اور اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق پر حملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

لیکن اب ایتھن چاہتے ہیں کہ حماس کو ختم کیا جائے اور وہ غزہ میں شہری زندگی کی ادا کردہ خطرناک قیمت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا، ’ایسا ہوجانا چاہیے، حماس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہیے۔ شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے لیکن جنگوں میں عام شہری افسوس ناک طور پر مارے جاتے ہیں۔ انصاف ہونا چاہیے۔‘

ان کے دو ساتھیوں نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔

یہ انصاف کرنے کے لیے آلات سڑک کے کنارے قطار میں لگے ہوئے تھے– مرکاوا ٹینک اور گولان بکتر بند گاڑیاں، ڈیوڈکا مارٹر اور سولٹم ہووٹزر، لیزر اور مٹاڈور میزائل سسٹم۔ آس پاس کے ہوائی اڈوں پر اپاچی ہیلی کاپٹر گن شپ ہتھیاروں سے لدے ہوئے تھے۔

مشن کب اور کیسے شروع ہوگا اس کے بارے میں مختلف اعداد و شمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت، فوج اور انٹیلی جنس سربراہوں کے درمیان اس پر بحث جاری ہے۔ موساد کے سابق سربراہ افریم ہیلیوی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمینی جنگ مہنگی پڑے گی اور خطے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔

اندرون و بیرون ملک سے تین لاکھ 60 ہزار سے زائد ریزروسٹ ڈیوٹی پر حاضر ہوئے ہیں۔ اس سے پیچیدہ لاجسٹک مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض رپورٹس کے مطابق آئی ڈی ایف کی جانب سے اپنی سپلائی چین کی نجکاری کی وجہ سے یہ صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔

حکومت کا اصرار ہے کہ ریزروسٹس کو وہ سب کچھ ملے گا جس کی انہیں ضرورت ہے۔ لیکن ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ خاندان اپنے ان پیاروں کے لیے نجی کٹ سے لے کر جوتوں اور باڈی آرمر تک خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو جنگ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

آپریشن کا وقت دیگر عوامل سے بھی متاثر ہوتا ہے، جیسا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر لگائی گئی ناکہ بندی، بجلی، پانی اور ایندھن کی معطلی۔ اجتماعی سزا ایک جنگی جرم ہے جس کے بارے میں وکلا نے نشاندہی کی ہے، اور اس طرح کے محاصرے کو غیر معینہ مدت تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاست دانوں کی دلیل ہے کہ یہ حملہ کیا جانا چاہیے جبکہ حماس کے قتل عام پر اسرائیل کے لیے بین الاقوامی حمایت اور ہمدردی موجود ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ غزہ میں اموات کی تصاویر دنیا بھر میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔

اب غزہ کے لوگوں کے لیے وقت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ کے شمال میں رہنے والے لوگوں کو 24 گھنٹے کی مہلت دی تھی کہ وہ جنوب کی طرف نقل مکانی کریں، جس میں ایک اندازے کے مطابق 11 لاکھ افراد صرف 42 کلومیٹر (26 میل) لمبے اور 12 کلومیٹر (7.5 میل) چوڑے علاقے میں نقل مکانی کریں گے۔

ماضی میں غزہ کی جنگوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب علاقے میں فضائی حملے کیے جاتے ہیں تو شہری اموات سے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ شہر سے نکلنے والے قافلے پر اسرائیلی فضائی حملے میں 70 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔

لاشوں کی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ کی عمر دو سال تک ہے۔ یہ قافلہ، ایک فلیٹ بیڈ ٹرک اور کاریں، صلاح الدین سٹریٹ پر سفر کر رہے تھے، جو جنوب کی طرف انخلا کے دو راستوں میں سے ایک ہے۔

ابراہیم اور آمنہ شہدیہ اور ان کے تین چھوٹے بچے جنوب کی طرف روانہ ہوئے تھے لیکن قافلے پر بم باری کی خبر ملتے ہی گھر لوٹ آئے۔ انہوں نے سفر دوبارہ شروع کیا کیونکہ متبادل پر غور کرنا بہت خوفناک تھا۔

ابراہیم نے کہا، ’میرا کزن جواد دو دن پہلے ایک بم دھماکے میں بری طرح زخمی ہوا تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ غزہ کے کچھ حصوں کے ساتھ کیا ہو چکا ہے۔ جن علاقوں میں ہم گذشتہ ہفتے گئے تھے وہ غائب ہو چکے ہیں۔ مجھے نظر نہیں آتا کہ کوئی حملے سے کیسے بچ سکتا ہے۔‘

33 سالہ سائنس گریجویٹ ابراہیم گذشتہ پانچ برس سے بے روزگار ہیں۔ انہیں نظر نہیں آتا کہ زمینی جنگ کے بعد خطے کی پہلے سے ہی انتہائی نازک معیشت میں کیا باقی رہ جائے گا۔

28 سالہ آمنہ نے تاہم زور دے کر کہا، ’ جنوب میں ہمارے پاس کم از کم زندہ رہنے کا کچھ موقع ہے۔ اپنے بچوں کی پرورش ہمارا فرض ہے۔‘

خطرے کے باوجود کچھ رہائشیوں نے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوسف اور مریم زراب اور ان کا نو افراد والا خاندان لڑائی شروع ہونے کے بعد پہلے ہی شمال میں بیت حانون سے غزہ شہر منتقل ہو چکا تھا۔

ان کی بیٹی لیلا نے کہا، ’میرے والد اور والدہ دونوں 80 کی دہائی میں اور بیمار ہیں۔ وہ مشکل سے چل سکتے ہیں۔ انہیں رہنے کے لیے ایک جگہ مل گئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اتنے بیمار ہیں اور آگے جانے کے لیے تھک چکے ہیں۔ ہم انہیں آنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔‘

اسرائیلی حکومت نے غزہ کے ہسپتالوں کو خالی کرنے کا کہا ہے۔ طبی عملہ لائے گئے زخمیوں کو کم بجلی اور ادویات کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔

مرکزی ہسپتال الشفا، کا صحن لاشوں سے بھرا ہوا ہے کیونکہ مردہ خانے میں مزید لوگ نہیں آسکتے۔

عملے کا کہنا ہے کہ مردہ خانے میں موجود لاشیں بجلی کی مزید بندش کی وجہ سے سڑنا شروع ہو جائیں گی۔

ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سالمیا کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا عملہ ایک ’ناممکن صورت حال‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا ہسپتال خالی ہوسکے گا یا نہیں۔ متعدد ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کا علاج کرنے کے لیے علاقے میں کہیں اور جگہ نہیں ہے۔

رپورٹس کے مطابق ایک مشہور سرجن، مدھت سیدم، جو پلاسٹک اور برن کے ماہر تھے، اپنے خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ ایک فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق آنے والا تنازع شاید 2014 کی غزہ جنگ سے بھی زیادہ مہلک ہوگا جس میں 1483 عام شہریوں سمیت 2205 سے زائد فلسطینی مارے گئے تھے۔ 50 دن کی لڑائی میں 71 اسرائیلی مارے گئے تھے جن میں 66 فوجی تھے۔

جب اسرائیلی افواج سرحد پر جمع ہو رہی ہیں تو مبینہ طور پر حماس کے چالیس ہزار جنگجو غزہ میں انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں وہ مغوی اسرائیلی بچوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تھے۔

ڈھلتے سورج کے ساتھ بڑھتا ہوا خوف یہ ہے کہ آنے والی خوفناک خونریزی میں مزید معصوم جانیں ضائع ہوں گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا