غزہ: فلسطینی شہریوں کی ’صفحہ ہستی‘ پر قائم رہنے کی جدوجہد

20 سالہ طالبہ دیمانے کہا: ’ہم بم گرنے کی آواز سنتے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ آواز کہاں سے آ رہی ہوتی ہے اس لیے ہم دعا کرتے ہیں کہ اگلا ہدف ہم نہ ہوں۔‘

13 اکتوبر 2023 کو جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شہری دفاع کے کارکن ایک عمارت کے ملبے میں متاثرین کو تلاش کر رہے ہیں جبکہ فلسطینی بچے یہ سب دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

’اوہ میرے خدا! یہ ایک اور حملہ ہے۔ اے میرے خدا۔‘ اسرائیلی فضائی حملے کی آواز سنی گئی، جس کے بعد وہ خاموشی چھا گئی جس میں دم گھٹتا ہے۔

مطیع مصباح کی آواز میں لرزش کچھ دیر کے لیے ختم ہو گئی جب کہ غزہ میں اسرائیلی طیارہ ان کے اوپر پرواز کرتا رہا۔ اس فضائی حملے میں وہ بچ گئے لیکن وہ بدترین حملے سے خوفزدہ ہیں۔

چار بچوں کے والد مطیع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب تک لوگ غزہ کی پٹی میں موجود نہیں ہوتے تب تک کوئی بھی نہیں مانے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب بھی جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں کسی بھی مقام کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

’میں جو دیکھ رہا ہوں وہ بہت تباہ کن ہے۔ پورا علاقہ نقشے سے مکمل طور پر پر مٹا دیا گیا ہے۔ یہ صرف مخصوص گھروں یا عمارتوں کو نشانہ بنانے کی بات نہیں۔‘

اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا حماس کے حملے کا ’زبردست انتقام‘ لینے کا وعدہ جسے ’آنے والی دہائیوں تک‘ یاد رکھا جائے گا، غزہ کے شہریوں کو سب سے زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام کے مطابق ہفتے (سات اکتوبر) کو حماس کے اس حملے، جس کی مثال نہیں ملتی، کے بعد اسرائیل کی جانب سے محصور پٹی پر مسلسل بمباری سے اب تک کم از کم 1417 فلسطینی جان سے جا چکے اور کم از کم 6268 زخمی ہو چکے ہیں۔

تشدد شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 1300 اسرائیلی جان گنوا اور کم از کم 3300 زخمی ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے لاکھوں فوجی اب غزہ کی سرحد پر متعدد مقامات پر جمع ہو چکے ہیں، کیوں کہ فوج زمینی حملے کے لیے تیار ہے۔

 اسرائیل نے غزہ میں مقیم 11 لاکھ فلسطینیوں کو جمعے کی رات 10 بجے تک شمالی علاقوں سے نکل جانے کا غیر معمولی حکم جاری کیا ہے۔

جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ مطالبہ پورا کرنا ’ناممکن‘ ہے اور اس کے ’تباہ کن انسانی نتائج‘ برآمد ہو سکتے ہیں۔

مطیع کہتے ہیں: ’یہ (علاقہ) ایک کھلی جیل ہے اور غزہ کو بنیادی ضروریات تک رسائی سے محروم کرنا پورے خطے کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔‘

لیکن خوراک اور پانی کی فکر غزہ پر تباہ کن فضائی حملوں کے خوف کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

مطیع کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی بیوی اور چار بچوں سے مختلف علاقے میں مقیم ہیں تاکہ ان کے خاندان کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی ہدف نشانہ بنتا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ نہیں مرنا چاہیے۔ ہم میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا چاہیے۔‘

مطیع مسلسل اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ زندہ ہیں لیکن محدود انٹرنیٹ اور بجلی کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی رابطہ معجزہ ہوتا ہے۔

 ’تمام بیٹریاں ختم ہو رہی ہیں۔ ہمارے پاس ایندھن ختم ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیسے زندہ رہیں گے؟‘

غزہ میں کوئی حقیقی پناہ گاہ نہیں ہے، اگرچہ تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار بے گھر فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے سکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔

غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی کارکن نجلہ شاوا نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کہا: ’جن سکولوں میں لوگ پناہ لیتے ہیں وہ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ وہ صرف عام سکول ہیں جو زیادہ مضبوط نہیں ہیں اور وہاں تحفظ کے کوئی مخصوص انتظامات بھی نہیں۔‘

جنوبی غزہ کے تباہ شدہ علاقے رفح میں محصور دیما محمد ابو عساکر اپنے سات افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ اپنے گھر میں موجود ہیں اور ہر آنے والا گھنٹہ مزید دہشت پھیلاتا ہے۔

بھاگنے کی صورت میں ہر شخص کے پاس ضروری اشیا کا ایک تھیلا ہوتا ہے۔

 

20 سالہ طالبہ دیما کا کہنا تھا: ’ہم بم گرنے کی آواز سنتے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ آواز کہاں سے آ رہی ہوتی ہے، اس لیے ہم دعا کرتے ہیں کہ ہم اگلا ہدف نہ ہوں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم وسائل ختم ہونے سے خوفزدہ نہیں۔ صرف ان بموں سے خوفزدہ ہیں جو ہر روز اور ہر سیکنڈ میں برس رہے ہیں۔ مجھے اپنے لوگوں، اپنے بھتیجوں کے لیے ڈر لگا رہتا ہے۔ وہ بچے ہیں۔ وہ ان آوازوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘

انٹرنیٹ دستیابی کے مختصر وقت کے دوران غزہ کے لوگ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر تلاش کرتے رہتے ہیں کہ آیا ان کے دوست اور پیارے زندہ ہیں۔

دیما کے بقول: ’ان چند گھنٹوں میں ہم جو تصاویر دیکھتے ہیں وہ ہمارے دل شکستہ کر دیتی ہیں۔ ہم ہر جگہ شہدا اور خون کو دیکھتے ہیں۔ مرنے والوں کی تصاویر اس وقت بھی آپ کے ساتھ رہتی ہیں جب انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے۔‘

تشدد شروع ہونے سے پہلے دیما یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ایک ایسی زندگی جس پر وہ اب افسوس کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’میری یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کے دو طلبہ مارے گئے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اگر میں یونیورسٹی واپس جا سکی تو ہوم ورک یا طویل گھنٹوں کی شکایت نہیں کروں گی۔ مجھے اتنے زیادہ نمبر ملتے تھے۔

’میں چاہتی ہوں کہ لوگ جانیں کہ ہم زندگی کے لائق ہیں۔ ہمارے خواب ہیں، ہماری خواہشات ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے کا حق ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا