چہرہ خدا کا نور ہوتا ہے۔
میں جدہ گیا ہوا تھا تو کسی بات کے دوران یہ بات ابوالحسن علی نے کہی اور میں ایک دم حیران سا ہو کے انہیں دیکھنے لگ گیا۔
حیران اس لیے ہوا کہ میری ساری زندگی کا سبق انہوں نے چھ لفظوں میں سامنے دھر دیا جب کہ میں ابھی اس کشمکش میں تھا کہ واقعی اس بات میں کوئی دم ہے بھی یا نہیں۔
جو کچھ اب تک وقت نے سکھایا وہ یہ تھا کہ لڑائی جھگڑا فون پہ نہیں کرنا چاہیے۔
فون پہ آپ بے رحم ہوتے ہیں۔ آپ سامنے والے کی آنکھیں نہیں دیکھ رہے ہوتے، چہرے کے تاثرات سامنے نہیں ہوتے، باڈی لینگوئج نظر نہیں آتی۔۔۔ چند لفظ ہوتے ہیں لکھے ہوئے یا پھر آواز کا ایک رابطہ؟ آواز بھی ایسی کہ جو کسی بھی وقت سگنل خراب ہونے سے کٹ جائے، ختم ہو جائے، تو اس خلائی سی آواز پہ بھروسہ کرتے ہوئے کیا لڑائی جھگڑا کیا جا سکتا ہے؟
ایک آپشن یہ لگتا ہے کہ اگر کوئی بہت اہم بات ہے تو ویڈیو کال کر لیں، اس پہ گفتگو ہو جائے لیکن وہ بھی اہم باتوں کی حد تک ۔۔۔ بحث یا باقاعدہ لڑائی کا امکان نظر آئے تو میرا خیال ہے کہ فون بند کر کے ملاقات پہ غور شروع کر دینا چاہیے۔
آمنے سامنے بیٹھ کر جب ہم کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں بہت سی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں۔ ہر انسان کا ایک اورا ہوتا ہے، مزید آسان لفظوں میں شخصیت سمجھ لیں۔
جب کوئی شخص گفتگو کرتا ہے تو اس کی بات میں صرف لفظ اور آواز کا اتار چڑھاؤ نہیں ہوتا، وہ پوری شخصیت شامل ہوتی ہے۔ اب بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چہرہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ ہاں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن آنکھیں کہتی ہیں کہ نہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں، گڑبڑ ہے، بہت زبردست رپھڑ ہے، باقاعدہ والا۔
کبھی کبھار سامنے والا ایگریسیو ہوتا ہے، اونچی آواز میں بات کر رہا ہوتا ہے لیکن آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کی باڈی لینگوئج اس غصے کا ساتھ نہیں دے رہی، تو آپ اتنی گرمی نہیں کھاتے اور کوشش کرتے ہیں کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے۔
کبھی آپ خود غصے میں ہوتے ہیں لیکن جس بات کا رنج ہوتا ہے وہ اگلے بندے کو دیکھ کر ہی خود بہ خود یکدم ختم ہو جاتی ہے۔
سائنسی طور پر یہ بات اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ 70 سے 93 فیصد تک انسانی کمیونیکیشن لفظوں میں نہیں ہوتی۔ البرٹ محرابیئین ایک ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا فارمولا ہے 55/38/7 کا۔
سات فیصد الفاظ، 38 فیصد لہجہ، رویہ اور آواز جب کہ باقی 55 فیصد حصہ ہماری گفتگو میں باڈی لینگوئج کا ہوتا ہے۔
ہم لوگ کیا کر رہے ہیں؟ اب آپ غور کریں۔ بچے میسج پر بات کرنے میں سب سے زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی بجائے فون یا بات کرنے کے، اسی پیٹرن پہ شفٹ ہوتے جا رہے ہیں، لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ باقی 93 فیصد کو لات مار کے صرف سات فیصد پہ اپنی اور آس پاس والوں کی پوری زندگی فٹ کی ہوئی ہے؟
کمیونیکیشن کی دنیا میں اس سے زیادہ تباہ کن وقت کوئی آ سکتا ہے کہ وہاں کسی کے مرنے کی خبر آئے اور یہاں ہم اس پر آنسو بہانے والا ایموجی ڈال دیں؟ مطلب کوئی مرے گا تب بھی ہم کارٹونوں سے مدد لیں گے؟ خدا کو مانیں یار، دو جملے نہیں کہے جا سکتے کیا ایک فون کال پر؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو جب میں نے یہ سنا کہ چہرہ خدا کا نور ہوتا ہے تو دراصل مجھے یہ سب کچھ یاد آ گیا اور جب میں نے باقاعدہ اس موضوع پہ سائنسی والا غوروفکر کیا تو مجھے ترس آنے لگ گیا کہ ماڈرن ہو کر کسی سہولت سے فائدہ اٹھانا تو کجا، ہم لوگ کس طرح سہولتوں کے ہاتھ یرغمالی بنتے جا رہے ہیں؟
سات پرسنٹ ۔۔۔۔۔ یعنی کسی بھی اہم رشتے سے بات کرنے کے لیے ہم اب سات فیصد پہ قناعت کیا کریں گے؟
ساری زندگی کے جھگڑے، لڑائیاں، پچھتاوے، قطع تعلقیاں اور خدا جانے کیا کیا کچھ کرتے ہوئے ہم لوگ شاید مضبوط اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ’سات فیصد‘ کے حصار میں ہوتے ہیں۔ باقی 93 فیصد اگر شامل ہوتا تو شاید ہم اتنے طاقتور نہ ہوتے، اتنے ’بااختیار‘ نہ ہوتے؟ اتنے ’بے نیاز‘ نہ ہوتے؟
مجھے ایک موقع دیں۔ ہاں، کسی بھی اور کو موقع دینے کی بجائے آپ لوگ مجھے ایک موقع دیں۔ اگلی دفعہ فون پر کسی کی آتما رولنے سے پہلے فیصلہ کریں کہ ایک ملاقات چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو ہونی چاہیے۔
جب مل لیں، خیریت سے واپس آ جائیں، تو بس مجھے فیس بک پر میسج میں دعا بھیج دیں۔
یقین کریں باقی 93 فیصد بات چیت ہمارا جسم، ہماری آنکھیں، ہمارا لہجہ اور ہمارا دل کیا کرتا ہے، ان سب کو کبھی کبھار استعمال کر لیا کریں، پرانے زمانے میں لوگ اسی لیے زیادہ خوش اور ایک دوسرے سے قریب رہا کرتے تھے کہ ان کے مطلوبہ صارفین کو لفظوں میں ڈھل جانے کی بے رحم سہولت میسر نہیں تھی!