کیا پاکستان چین کے قرضوں کے جال سے نکل پائے گا؟

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر چین کے قرضوں کو ری شیڈول کیا جا سکتا ہے۔

11 اپریل، 2016 کی اس تصویر میں کراچی سے تقریبا 700 کلومیٹر مغرب میں واقع گوادر کی بندرگاہ پر موجود مشینری کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

اکرم کراچی کے رہائشی ہیں اور نجی کمپنی میں 15 ہزار پر ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں وراثت میں ملا گھر بیچ دیا۔

ان کے بڑے بھائی خوشحال ہیں۔ اکرم کو جب بھی ضرورت پڑی وہ بڑے بھائی سے ادھار رقم مانگ لیتے جو انہیں بآسانی مل جاتی اور وہ اپنی ضروریات پوری کرتے رہے۔

بڑے بھائی بھی انہیں کاروبار کرنے کا طریقہ بتانے یا ذرائع آمدن بڑھانے کی بجائے قرض دینے کو ترجیح دیتے رہے۔

آج اکرم بڑے بھائی کے اتنے مقروض ہو چکے ہیں کہ قرض اتارنے کے لیے اپنا گھر بیچنے پر مجبور ہو گئے اور بھائی نے مزید قرض دینا بند کر دیا ہے۔

اکرم سوچتے ہیں کہ جتنا قرض بھائی سے اپنی عیاشیاں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے لیا اگر اس کا 10 فیصد آمدن بڑھانے کی کوشش میں لگائے ہوتے تو وہ آج خودمختار ہوتے اور انہیں اپنا گھر نہ بیچنا پڑتا۔

وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے ساتھ بڑے بھائی کو بھی قصووار قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے بڑے بھائی نے جان بوجھ کر مجھے مسلسل قرض کے جال میں پھنسائے رکھا۔ بھائی مجھے قرض نہ دیتے تو میں یا تو اپنی ضرورتیں کم کر لیتا یا مزید محنت کرتا اور میرا گھر بکنے سے بچ جاتا۔

اکرم کی زندگی کے تجربے اور پاکستان کے حالات میں کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔

چینی قرضوں کے حوالے سے لاہور چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چین کو پاکستان کا بڑا بھائی کہا جاتا ہے اور ان بھائیوں کی دوستی کو سمندر سے گہرا اور پہاڑوں سے بلند قرار دیا جاتا ہے۔

’چین ہر مالی مشکل وقت میں آگے بڑھ کر پاکستان کو آسان شرائط پر قرض دے دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔

ان کے مطابق: ’پاکستان 70.3 ارب ڈالرز کے ساتھ چینی فنانسنگ کا تیسرا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔ پچھلے 21 برس میں سب سے زیادہ قرض پاکستان مسلم لیگ ن کے حالیہ دور 2013 سے 2017 میں لیے گئے جو کہ تقریباً 36 ارب 20 کروڑ ڈالرز ہیں۔

’اس کے بعد تحریک انصاف نے تقریباً 19 ارب 60 کروڑ اور پیپلز پارٹی نے تقریباً 10 ارب 40 کروڑ ڈالرز قرض لیا۔ سب سے کم قرض صدر پرویز مشرف کے دور میں لیا گیا جو کہ تقریبا چار ارب ڈالرز تھا۔

’ان میں سب سے زیادہ قرض تقریباً 28 ارب 40 کروڑ ڈالرز انرجی منصوبوں کی مد میں لیے گئے۔ توانائی کا یہ پورٹ فولیو دنیا میں سب سے بڑا ہے، اس کے بعد انگولا اور ویت نام کا نمبر ہے۔ 2012 کے بعد ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب سے زیادہ قرض چین سے لیے گئے۔

’اگر امریکہ کے مقابلے میں دیکھا جائے تو 2013 میں 1.6 گنا، 2016 میں 7.7 گنا اور 2021 میں 22.4 گنا زیادہ فنانسنگ کی گئی ہے۔

’چینی قرض امریکی قرضوں سے مہنگے ہیں۔ پاکستان نے جو قرض لیے ان کا شفاف استعمال بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی قرضوں میں اضافہ ہوا۔

’اب آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے چین سے پھر 600 ملین ڈالرز کا قرض مانگ لیا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’پاکستان کا چینی قرضوں کے جال سے باہر نکلنا فی الحال ناممکن ہے۔ملکی ذخائر تقریباً سات ارب ڈالرز ہیں اور چینی واجب الادا قرض تقریباً 68 ارب ڈالر ہے، جو ملک کے مجموعی قرضوں کے 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

’یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس چھ کھرب ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان ذخائر سے ملک کاایک ارب ڈالر قرض بھی اتارا نہیں جا سکتا۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر چین کسی معاہدے کے تحت ان قرضوں کو گرانٹس میں بدل دے، ان شرائط میں ملکی جی ڈی پی بڑھانا اور معاشی طور پر خودمختار ہونا بنیادی شرائط ہو سکتی ہیں۔

’پاکستان نے سی پیک کی شکل میں چائنہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ اس کا بدلہ بھی ہو سکتا ہے۔  چین سی پیک سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے اور قرض پر سود بھی لے رہا ہے۔ پاکستان امریکہ اور انڈیا سی تعلقات خراب کر کے پہلے ہی چینی دوستی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔‘

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر چین کے قرضوں کو ری شیڈول کیا جا سکتا ہے۔،ری  شیڈولنگ بہتر حل ہے۔

’دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پیرس کلب کی مثال سب کے سامنے ہے لیکن اس حوالے سے چین نے ابھی تک رضامندی نہیں دکھائی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق‘ ’جب سری لنکا ڈیفالٹ کیا تھا تو آئی ایم ایف چھتری ملنے کے بعد انڈیا نے قرض فوری ری شڈیول کر دیے تھے لیکن چین ایک سال تک ٹال مٹول سے کام لیتا رہا جبکہ قرض بھی صرف  تقریباً چار، پانچ ارب ڈالر تھا۔

’کمرشل قرضوں اور آئی پی پیز پر تو چینی حکومت پاکستان سے کسی طرح کے ریلیف کی بات ہی نہیں کرے گی، قرضوں کی ری شیڈولنگ باہمی قرضوں پر ہوتی ہے۔

’عالمی مالیاتی ادارے ری شیڈولنگ نہیں کرتے۔ پاکستان کے لیے یہ نیا نہیں۔ پاکستان ماضی میں پیرس کلب سے قرض ری شڈیول کروا چکا ہے۔‘

بابر علی نجی بینک کے وائس پریزیڈنٹ ہیں۔ وہ چینی قرضوں اور سی پیک پر کام کرتے رہے ہیں۔

انہوں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ سی پیک کے مختلف منصوبوں میں چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دیا گیا تھا تاہم اصل مسئلہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے ایکسٹرنل فنانسگ، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے دیے گئے قرض ہیں۔

’آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو اس حوالے سے تشویش ہے۔ اسی لیے امریکی جریدی اسے چینی ڈیبٹ ٹریپ قرار دے رہے ہیں۔

ان کے مطابق: ’چینی قرضوں سے آج تک کسی ملک کو نکلتے نہیں دیکھا۔ اگر حکومت پاکستان آج سے ارادہ کرے تو شاید پاکستان کو اس میں سے نکلنے کے لیے مزید 50 سال درکار ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت