اردو، پنجابی اور سندھی کی 600 سے زائد فلموں میں اہم کردار ادا کرنے والے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی 1979 میں فلم ’مولا جٹ‘ میں سلطان راہی کے ساتھ ولن کے کردار میں ’نوری نت‘ کے نام سے ایسے مشہور ہوئے کہ آج بھی لوگ انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔
مصطفیٰ قریشی نے سکھر میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اور سلطان راہی کی جوڑی نے 26 سال تک فلم کی سکرین پر راج کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران چھ سو کے لگ بھک فلموں میں کام کیا ہے۔ سلطان راہی کی موت نے مجھے بہت دکھ دیا بلکہ اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہیں آج بھی یاد کرتا ہوں تو مجھے فلم انڈسٹری کے عروج کا زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ ان دنوں پاکستان میں فلم تقریباً ختم ہوچکی ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سینیما گھر جو تفریح کا ایک اچھا ذریعہ تھے وہ ختم ہو چکے ہیں اس کی جگہ اب پلازہ تعمیر ہوچکے ہیں۔
’پاکستان سے فلم انڈسٹری کا زوال ایک الیمہ ہے، یہ ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ملک میں منافعے کے ذریعے کے خاتمے کا بھی باعث بنا ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں اس انڈسٹری کے ذریعے اچھا خاصہ روینیو اکھٹا ہو رہا ہے۔ اس انڈسٹری کو تباہ کرنے میں فلم بنانے والوں نے فحاشی اور بے ڈھنگے سکرپٹ سے اسے تباہ کرنے میں اپنا بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔
مصطفیٰ قریشی کا ایک فلمی ڈائیلاگ ’ںواں آئیاں ایں سوہیناں‘ بھی ان کی پہچان بنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصطفیٰ قریشی کا تعلق بنیادی طور پر سندھ کے شہر حیدرآباد سے ہے۔ وہ 11 مئی 1938 کو پیدا ہوئے تاہم ان دنوں وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے سندھی فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا تاہم انہیں زیادہ شہرت پنجابی فلموں سے حاصل ہوئی۔
مصطفیٰ قریشی کو ان کی کارکردگی پر تین بار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1979 میں انہیں فلم ’لال آندھی‘ میں بہترین معاون اداکار کی کیٹیگری میں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس کے بعد انہیں 1981 کی فلم ’شیر خان‘ اور 1983 میں فلم ’رستم تے خان‘ میں ان کی شاندار کارکردگی پر تیسری بار نگار ایوارڈ دیا گیا۔
اس کے علاوہ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1988 میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
مصطفیٰ قریشی نے عملی طور پر سیاست میں بھی حصہ لیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے بعد کئی دہائیوں تک پارٹی میں شامل رہے۔
وپ پیپلز پارٹی کے کلچرل ونگ کے سربراہ بھی بنے اور ان دنوں صرف سماجی خدمات میں مصروف ہیں۔