اسرائیل سے جنگ بندی معاہدے کے قریب ہیں: حماس رہنما

اسرائیل سات اکتوبر سے غزہ پر جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اب 13 ہزار سے زائد فلسطینی بشمول ساڑھے پانچ ہزار بچے مارے جا چکے ہیں اور جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

فلسطینی گروپ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز  کو بتایا ہے کہ حماس کے اہلکار اسرائیل کے ساتھ ’جنگ بندی کے معاہدے کے قریب پہنچنے والے ہیں‘ اور گروپ نے قطری حکام تک اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔

قطر غزہ میں جنگ بندی کی کوشش میں پیش پیش ہے لیکن تاحال جنگ بندی کہ ممکنہ معاہدے کی شرائط کے بارے میں حماس یا کسی فریق کی طرف سے مزید تفصیلات نہیں فراہم کی گئیں۔

ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے کے قریب پہنچنے کی خبر ایسے وقت سامنے آئی جب فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا نے منگل کی صبح بتایا کہ غزہ میں نصیرات کیمپ پر نصف شب کو اسرائیلی بمباری میں 17 فلسطینی جان سے گزر گئے ہیں۔

ادھر متعدد ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مذاکرات کار ایک معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں جس کے تحت ممکن ہے حماس غزہ سے درجنوں بچوں سمیت 75 قیدیوں کو رہا کرے۔

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوا لیکن مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ قطر اور امریکہ کی مدد سے ہونے والے معاہدے کے تحت آئندہ ہفتے کے اوائل تک لوگوں کو رہا کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی پیر کو قیدیوں کی رہائی سے متعلق صحافیوں کے پوچھے گئے سوالوں کی جواب میں کہا کہ ’میرا یقین ہے ایسا ہی ہے۔‘

دی انڈپینڈنٹ کو ذرائع نے بتایا کہ ’اس معاہدے پر ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہوا۔‘ ذرائع کا کہنا کہ ’غزہ سے 50 سے 75 کے درمیان خواتین اور بچے نکلیں گے۔ اس میں جنگ بندی یا تعطل شامل ہو گا۔‘

مذاکرات کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک دوسرے سفارتی ذرائع نے کہا کہ ایک پختہ معاہدے پر اتفاق کی خبر قبل از وقت ہے اور اس کے لیے ’منطقی قدم‘ کے طور پر لڑائی میں تین دن کا وقفہ ہوگا تاکہ قیدیوں کو منتقل کیا جا سکے۔

دیگر ذرائع نے کہا ’کچھ تفصیلات کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے۔ بات چیت جاری ہے اور ابھی تک کوئی ٹھوس معاہدہ نہیں ہوا۔ اس میں شریک ہر شخص محتاط ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی اسی مرحلے پر پہنچے تھے اور معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تمام فریق قیدی بنائے گئے 50 سے 70 خواتین اور بچوں کی رہائی پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ [بدلے میں] فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ فوجی اہلکاروں کے تبادلے کے بارے میں بھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ قیدیوں کی بحفاظت منتقلی سے پہلے ایک وقفے پر اتفاق کرنا ایک منطقی قدم ہے۔‘

خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی اسرائیلی کابینہ سے منظوری لینی پڑے گی اور اگر اعتراضات ہوئے تو اسرائیلی سپریم کورٹ سے اپیل کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ اسرائیل میں کچھ فلسطینی خواتین اور بچوں کے ممکنہ تبادلے کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی ہے۔

سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس میں 12,00 افراد مارے گئے اور کم از کم 240 افراد جن میں بچے، غیر ملکی شہری اور فوجی بھی شامل تھے کو قیدی بنا لیا گیا۔

 مصر، قطر اور امریکہ کی مدد سے اب تک صرف چار خواتین قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔

تاہم اسرائیل نے حماس کے زیر انتظام غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وہاں 5,500  بچوں سمیت 13 ہزار سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی زمینی فوج اور توپ خانہ غزہ کی پٹی کے اندر بہت آگے جا چکا ہے وہاں کے ہسپتالوں کا محاصرہ  کر کے ان میں اسرائیلی فوجی بھی داخل ہوئے ہیں۔

متعدد اسرائیلی عہدیداروں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا  ہے کہ اس ملک کی توجہ صرف تمام یرغمالیوں کی ’فوری اور غیر مشروط رہائی‘ پر مرکوز ہے اور سیز فائر مذاکرات میں شامل نہیں۔

اتوار کو امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ہرزوگ نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ اسرائیل کو امید ہے کہ ’آنے والے دنوں میں‘ حماس کی طرف سے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کیا جا سکتا ہے۔

اسی دن قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ معاہدے کی راہ میں ’بہت معمولی‘ رکاوٹیں رہ گئی ہیں جن میں بنیادی طور پر ’عملی اور لاجسٹک‘ مسائل شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا