انڈیا میں افغان سفارت خانے کی ’چابیاں طالبان کے حوالے‘

ممبئی میں افغانستان کے قونصل جنرل کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں واقع افغان سفارت خانے کے لان میں دو سفارت کار افغانستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔

ایک افغان شہری 29 ستمبر 2023 کو نئی دہلی میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کے سفارت خانے کے باہر کھڑا ہے (ارون سنکر / اے ایف پی)

افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے سفارت کاروں نے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع افغانستان سفارت خانے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جس سے خطے میں معزول اشرف غنی انتظامیہ کا آخری نشان بھی ختم ہو گیا۔

ممبئی میں افغانستان کے قونصل جنرل کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دہلی کے چانکیہ پوری سفارت خانے کے ضلع میں واقع افغان سفارت خانے کے لان میں دو سفارت کار افغانستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔

انڈیا نے اگست 2021 میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے والے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور دو سال قبل امریکی انخلا سے پہلے کابل سے اپنے عملے کو نکال لیا تھا۔

انڈیا کی اب وہاں سفارتی موجودگی نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پیروی کرے گا۔

نئی دہلی میں افغان سفارت خانہ، جس کی سربراہی سابق انتظامیہ کے مقرر کردہ افراد کر رہے تھے، گذشتہ ہفتے تک انڈیا میں موجود افغانوں کو قونصلر خدمات فراہم کر رہا تھا۔

لیکن انڈیا میں ان عہدیداروں کے سفارتی ویزوں کی میعاد ختم ہونے اور انڈین حکومت کی جانب سے ان میں توسیع کا کوئی امکان نہ ہونے کے باعث انہوں نے گذشتہ جمعے (24 نومبر) کو اعلان کیا تھا کہ وہ کابل میں تسلیم شدہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام بند کر رہے ہیں۔

اشرف غنی انتظامیہ کے تمام سابق عہدیدار اب انڈیا چھوڑ کر تیسرے ممالک چلے گئے ہیں۔

ویڈیو میں دو افغان سفارت کار نظر آ رہے ہیں، ایک ممبئی میں افغانستان کی قونصل جنرل ذکیہ وردک ہیں اور دوسرے حیدرآباد میں افغانستان کے قونصل جنرل سید محمد ابراہیم خیل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انڈین حکومت نے انہیں موجودہ قونصل جنرل کی حیثیت سے سفارت خانے کا چارج سنبھالنے کے لیے کہا تھا۔

افغانستان کے سابق سفیر فرید ماموندزے نے ان دونوں سفارت کاروں پر کابل میں طالبان حکومت کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

نئی دہلی کے سفارت خانے میں ان کی آمد کا خود طالبان نے بھی خیر مقدم کیا۔ طالبان کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے کہا کہ حکومت نئی دہلی کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور دہلی میں آپریشنز اس ہفتے دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔

وزیر نے مزید کہا کہ طالبان کو انڈیا میں سفارت خانے کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے اور اس کی قیادت اس کے سفارت کار کریں گے، جو دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے کہا کہ دونوں مشنوں کے قونصل اہلکار اس ہفتے کے اوائل میں نئی دہلی گئے اور وہاں دفاتر کو دوبارہ کھولا۔

اس ہفتے سامنے آنے والی ویڈیو میں جو جھنڈا لہرایا جا رہا ہے وہ کم از کم طالبان کا امارت اسلامیہ والا سیاہ و سفید پرچم نہیں ہے۔ اس کے بجائے سفارت کاروں کو افغان جمہوریہ کے سیاہ، سرخ اور سبز دھاریوں کا ترنگا پرچم لہراتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے مرکز میں اس کا قومی نشان ہے۔

سفارت خانے آنے والے سربراہان کا کہنا تھا کہ پرانا پرچم اس لیے تبدیل کیا گیا کہ وہ خراب ہوگیا تھا، تاہم انہوں نے اسے ’علامتی اقدام‘ قرار دیا۔

اگرچہ انڈیا نے کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ نہیں کھولا، لیکن اس کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جو طالبان کے ساتھ براہ راست ڈیلنگ کرتے ہیں، جس کے متعلق مودی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ’انسانی بنیادوں پر‘ کام کے لیے ضروری ہے۔

انڈین حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ اس نے اشرف غنی کی جانب سے مقرر کردہ سابق سفیر کی حمایت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ ان سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ طالبان اور انڈین حکومت دونوں کی جانب سے کنٹرول چھوڑنے کے لیے مسلسل دباؤ کے پیش نظر ان کے پاس ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انڈین حکومت بارہا کہتی رہی ہے کہ افغان سفارت خانے کے کنٹرول کا معاملہ افغانستان کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا