انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کی پانچ میں سے تین اہم ریاستی انتخابات میں کامیابی کے بعد سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں عام انتخابات سے قبل وہاں کی حزب اختلاف کو اپنی قسمت بدلنے کے لیے ایک ’ایک بہت بڑی مشکل‘ کا سامنا ہے۔
پورے نومبر میں زیادہ آبادی والی ریاستوں جن میں، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم بھی شامل تھیں، میں ہونے والے انتخابات میں تقریباً 16 کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔
اتوار اور پیر کو اعلان کیے گئے نتائج کے مطابق نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) راجستھان اور چھتیس گڑھ میں دوبارہ برسراقتدار آئی ہے، جو مرکزی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے سابق گڑھ تھے اور ساتھ ہی بی جے پی وسطی مدھیہ پردیش میں بھی اپنی غالب پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔
کانگریس نے جنوبی انڈیا کی ایک ریاست تلنگانہ میں کامیابی حاصل کی جبکہ میزورم کے انتخابات میں دو مقامی جماعتیں سرفہرست تھیں، بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی۔
انڈین پارلیمنٹ میں پیر کو نریندر مودی کے بی جے پی کارکنوں کی جانب سے نعرے بازی کی گئی، جنہیں یقین ہے کہ وہ ریکارڈ تیسری مرتبہ انہیں انڈیا کا وزیراعظم بنا سکتے ہیں۔
نریندر مودی نے ان ریاستوں میں ’غیر متزلزل حمایت‘ کے لیے رائے دہندگان کا شکریہ ادا کیا، جہاں ان کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔
مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انڈیا کے لوگ اچھی حکمرانی اور ترقی کی سیاست کے ساتھ ہیں، جس کے لیے بی جے پی کھڑی ہے۔‘
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے تلنگانہ کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان ریاستوں میں ہار تسلیم کی، جہاں ان کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: ’نظریے کی جنگ جاری رہے گی۔‘
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا کے عام انتخابات، جو مئی میں متوقع ہیں، سے پہلے نتائج پر گہری نظر رکھی جا رہی تھی۔
سی ووٹر ایجنسی کے پولنگ ایکسپرٹ یشونت دیشمکھ نے کہا: ’ان نتائج کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مودی کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ مودی کو روکنا اپوزیشن کے لیے ایک ’مشکل کام‘ ہوگا۔
لیکن جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر آنند کمار کا کہنا ہے کہ اخباری شہ سرخیوں میں شکست کے باوجود ریاست کے نتائج میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔
ڈاکٹر کمار نے کہا کہ دو انتخابات، جن میں بی جے پی اور مودی کا انڈین سیاست پر غلبہ رہا، کے بعد سے اب زیادہ سے زیادہ لوگ متبادل کے طور پر کانگریس کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان کا اشارہ پورے راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں گاندھی اور نہرو کی سب سے پرانی پارٹی کو ملنے والےتقریباً 40 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ کی طرف تھا۔
انہوں نے کہا: ’اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ ان ووٹوں کو سیٹوں میں تبدیل کریں۔ اس وقت انڈین رائے دہندگان کو باآسانی متاثر کیا جا سکتا ہے اور اگر اپوزیشن کی طرف سے اچھی طرح سے رابطہ کیا جائے تو وہ متاثر ہوسکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ انڈیا میں ریاستی انتخابات عام طور پر مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں، لیکن ڈاکٹر کمار کا استدلال ہے کہ قومی سطح پر حکومت مخالف جذبات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مئی کے انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوں گے جب انڈیا کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، جن میں بے روزگاری اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، ملک کی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں پر ہندو قوم پرستوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر بہت سے لوگوں کی تشویش اور اختلاف رائے اور آزاد پریس کے لیے سکڑتی ہوئی جگہ سمیت متعدد مسائل شامل ہیں۔
اور اگرچہ مودی کی ذاتی مقبولیت قابل ذکر سطح پر برقرار رہ سکتی ہے، لیکن ان کی دوسری مدت میں ان کی پارٹی کا رائے دہندگان کے کچھ بڑے گروہوں کے ساتھ تصادم ہوا، شمالی انڈیا کے کسانوں نے احتجاج کیا اور آخر کار بڑے زرعی اصلاحات کے پیکج پر یوٹرن لینے پر مجبور کیا۔
2019 میں جب مودی نے غیر متوقع طور پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تو انڈیا کی حزب اختلاف پر ایک تنقید یہ تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی بھی مخالف کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایک متحدہ محاذ پیش کرنے میں ناکام رہی۔
اگلے سال ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ انڈیا کی قبل ازیں ٹوٹی پھوٹی اپوزیشن نے کانگریس کی قیادت میں 28 جماعتوں کا ایک بے مثال اتحاد تشکیل دیا ہے، جسے ’انڈیا‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر کمار نے کہا: ’ انڈیا کے جمہوری ہونے کی منطق پر اور اقتدار کے تصور پر بی جے پی کو روکا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’گذشتہ نو برسوں میں انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں واضح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انڈیا میں ان کی نفرت کی سیاست کی وجہ سے ان کی کمزوری بڑھ گئی ہے، جس کا اثر سیکولر معاشرے پر پڑا ہے۔‘
© The Independent