الیکشن شیڈول کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں ہو سکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں پیر کو تین رکنی بینچ نے کوئٹہ کی دو صوبائی نشستوں پر حلقہ بندیوں کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔

خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود میں ایک شخص 20 جولائی 2019 کو ہونے والے پہلے صوبائی انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کر رہا ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے دو اضلاع میں حلقہ بندیاں تبدیل کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’انتخابی پروگرام جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔‘

سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں پیر کو تین رکنی بینچ نے کوئٹہ کی دو صوبائی نشستوں پر حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی سارے کیوں چاہتے ہیں کہ الیکشن لمبا ہو، الیکشن ہونے دیں۔‘

بلوچستان ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیاں تبدیل کی تھیں، جسے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جو اختیار قانون نے الیکشن کمیشن کو دیا اسے ہائی کورٹ کیسے استعمال کر سکتی ہے۔ اگر اس درخواست پر فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ میں درخواستوں کا سیلاب امڈ آئے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو سب کچھ رک جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا امتحان ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات شفاف ہوں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن پروگرام جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق تمام مقدمہ بازی غیر موثر ہو چکی ہے۔ کسی انفرادی فرد کو ریلیف دینے کے لیے پورے انتخابی عمل کو متاثر نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس حوالے سے لکیر کھینچ کر حد مقرر کرنی ہے۔‘

رواں ماہ 15 دسمبر کی رات کو سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کا پروگرام جاری کر دیا ہے جس کے مطابق انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہی ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن نے رواں برس دو اکتوبر کو ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صوبہ بلوچستان کی نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستیں ہیں، جبکہ بلوچستان قومی اسمبلی کا ایک حلقہ نو لاکھ 30 ہزار 900 نفوس جبکہ صوبائی حلقے کا کوٹہ دو لاکھ 92 ہزار 47 افراد پر مشتمل ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کے بعد بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں کے نمبرز تبدیل جبکہ نشستوں کی تعداد میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضلاع کے حوالے سے تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 251 جو کہ پرانا حلقہ 257 تین اضلاع قلعہ سیف اللہ کم ژوپ کم شیرانی پر مشتمل ہے۔ حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں شیرانی ژوب کی ایک اور صحبت پور، جعفرآباد، اوستا محمد کی بھی ایک، ایک نشست ہوگی۔

جس کے بعد چار درخواست گزاروں سعید الرحمن، ملک گل زادہ، حافظ گلاب الدین اور شاہ زمان نے الیکشن کمیشن کی ژوب و شیرانی کی حلقہ بندیاں بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی تھیں۔

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بینچ نے رواں ماہ 15 دسمبر کو دائر آئینی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حلقہ بندیوں سے متعلق فیصلہ جس میں پٹوار سرکل عبداللہ زئی ضلع ژوب کو پی بی-2 میں شامل کرنے اور اس سے حلقہ پی بی-1 شیرانی کم ژوب سے خارج کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایات دیں کہ ’حتمی حدبندی (فارم-7) کو عدالت عالیہ کی سفارش کردہ طریقے کے مطابق جاری کی جائے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست