خیبر پختونخوا: انتخابی سرگرمیوں کے لیے سکیورٹی سازگار ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق کچھ سیاسی جماعتیں الیکشن 2024 کی مہم کے دوران عسکریت پسندی کا نشانہ بن سکتی ہیں تاہم حالات اتنے خراب نہیں کہ انتخابات ملتوی کیے جائیں۔

سال 2018 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران 11 جولائی کی شدید گرمی میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی پشاور میں کارنر میٹنگ کے دوران پارٹی رہنما ہارون بلور کے پہنچتے ہی دھماکہ ہوتا ہے۔

ہارون بلور ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، جبکہ پولیس کے مطابق اس واقعے میں اے این پی کے 20 دیگر کارکن بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ نہیں۔ ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور کو بھی 2012 میں ایک بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جب کہ 2008 اور 2013 کے عام انتخابات سے پہلے اے این پی کے مختلف سیاسی جلسوں کو بھی شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں امن و امان کے حالات 2013 کے بعد قدرے بہتر ہوئے تھے لیکن افغانستان میں افغان طالبان کے آنے کے بعد شدت پسندی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا۔

2022 میں پاکستان میں شدت پسندی کے 365 واقعات کے مقابلے میں محکمہ داخلہ کے مطابق 2023 میں اب تک 800 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد ہوں گے اور سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے لیکن بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتیں دوبارہ نشانے پر ہوں گی۔

اس بات کا خدشہ گذشتہ مہینے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ انتخابات میں جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ف)، اے این پی اور مسلم لیگ ن کو سکیورٹی خطرات درپیش ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے اینٹی اسٹیبلیشمنٹ بیانیے کا شدت پسند فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں اور مبصرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا سکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے گی یا دوبارہ یہ جماعتیں شدت پسندوں کے نشانے پر ہوں گی۔

اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ’میں گذشتہ دو تین سال سے بتا رہا ہوں کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’میں پشاور ہائی کورٹ گیا ہوں۔ سپریم کورٹ گیا ہوں اور ہر فورم پر یہی آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ’امن مذاکرات‘ کس نے اور کس کے کہنے پر کیے اور اس کا فائدہ کس کو ہوا اور کن شرائط پر کیے گئے؟‘

ایمل ولی نے کہا کہ ’ان حالات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کا سوچنا بچگانہ ہوگا کیونکہ ہم پہلے بھی نشانہ بنے ہیں اور 2018 میں جب دیگر سیاسی جماعتیں انتخابی مہمات میں مصروف تھیں، ہمارے ہارون بلور کو شہید کیا گیا۔‘

ایمل نے بتایا کہ ’اسی طرح 2013 میں بھی اے این پی شہدا کی لاشیں اٹھا رہی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ جن کا نظریہ تشدد، وحشت، دہشت، کلاشنکوف، دھماکے، خودکش حملے ہیں تو ان حالات میں جب آپ امن کی بات کریں گے تو آپ شدت پسندوں کے نشانے پر ہوں گے۔‘

 

صحافی و تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کے خیال موجودہ حالات ماضی سے مختلف ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ماضی میں اے این پی کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ آفتاب شیرپاؤ سمیت سیاسی جلسوں میں دھماکے ہوئے لیکن انتخابات ملتوی نہیں ہوئے تھے اور اب بھی انتخابات ممکن ہیں۔‘

مشتاق کے مطابق: ’سیاسی مہمات کے لیے کچھ ایس او پیز بنائے جانے چاہییں اور قبائلی اضلاع میں خصوصاً شام کے بعد جلسے جلوسوں کے بجائے چھوٹی کارنر میٹنگز کرنی چاہییں۔‘

مشتاق کا کہنا تھا کہ ’ایسی مختصر تقاریب کو سکیورٹی فراہم کرنا آسان ہو گا کیونکہ اب پولیس اور سکیورٹی اہلکار بھی نشانے پر ہیں تو ان حالات میں سکیورٹی اداروں کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا: ’پاکستانی شدت پسندوں نے افغانستان جانے کے بعد افغان طالبان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

’ٹی ٹی پی نے ماضی میں عوامی مقامات کو نشانہ بنایا تھا اور اس کا ردعمل بھی زیادہ ہوتا تھا اور اسی لیے ان کی واپسی کی عوامی سطح پر مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’اسی وجہ سے عوام میں اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے ٹی ٹی پی نے عوامی مقامات کو ٹارگٹ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب زیادہ سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’اب اگر سکیورٹی اہلکاروں کو خود ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو سیاسی جلسوں اور جلوسوں کو سکیورٹی دینا مشکل ہو جاتا ہے تو اسی وجہ سے ایس او پیز بنانے کی ضرورت ہے لیکن انتخابات کو ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست