پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آج صبح (جمعرات) کو پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کیے ہیں جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار ’دہشت گردوں‘ کے زیر استعمال تھے۔
راولپنڈی سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’درست حملے، کلر ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور سٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے جن کے دوران وسیع نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔‘
بیان کے مطابق: ’بلوچستان لبریشن آرمی (بی آر اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا جس کا کوڈ نام مرگ بر سرمچار تھا۔‘
پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ نشانہ بنائے جانے والے ٹھکانے بدنام زمانہ ’دہشت گرد‘ استعمال کر رہے تھے جن میں دوست عرف چیئرمین، بجر عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے حوالے رپورٹ کیا ہے کہ ’ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے نائب صوبائی گورنر علی رضا مرہماتی کا کہنا ہے کہ آج صبح سراوان کے سرحدی گاؤں میں ہونے والے حملے میں دو افراد بھی مارے گئے جس کے بعد اموات کی تعداد نو ہوگئی ہے۔‘
اس سے قبل ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی خبر کے مطابق ایک صوبائی سکیورٹی اہلکار نے اعلان کیا تھا کہ جمعرات کی صبح جنوب مشرقی ایرانی شہر پر پاکستان کے میزائل حملے کے دوران سات افراد جان سے گئے جن کی ایرانی شہریت نہیں تھی۔‘
پاکستان نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے تہران کی جانب سے کیے گئے حملوں کے جواب میں آپریشن ’مرگ بر سرمچار‘ کا آغاز کرتے ہوئے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف موثر فوجی کارروائی کی ہے، جس کے نتیجے میں ’متعدد دہشت گرد مارے گئے۔‘
ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق ایران نے پاکستان کے ناظم الامور کو جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان میں حملے پر احتجاج کے لیے دارالحکومت تہران طلب کیا ہے۔
پاکستانی سفارت کار کو وزارت میں جمعرات کو پاکستانی سفیر کی غیر موجودگی میں طلب کیا ہے تاکہ ان سے سراوان شہر میں ہونے والے مختلف دھماکوں پر وضاحت طلب کی جا سکے۔
’صورت حال پیچیدہ ہے، بات چیت کے لیے تیار ہیں‘: ترجمان دفتر خارجہ
ایران میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستان کے جوابی حملوں کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ’ہم جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتے، اور جانتے ہیں کہ کچھ دن پہلے ہونے والے حملوں کی وجہ سے صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات ضروری ہیں۔ ہم بشمول ایران اپنے تمام ہمسایوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘
جمعرات کو دفتر خارجہ اسلام آباد میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’آج صبح پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عسکریت پسند سرمچار کے نام سے ایران میں پناہ لیتے تھے۔ پاکستان نے کئی بار ایران کے ساتھ ثبوت شیئر کیے۔ پاکستان ایران کی سالمیت اور خودمختاری کی پوری عزت کرتا ہے لیکن یہ حملہ پاکستان نے اپنی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع میں کیا۔ پاکستان کسی کو اپنی خود مختاری اور سالمیت کو چیلینج نہیں کرنے دے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے موجود صورت حال کے تناظر میں ڈیووس میں اپنا دورہ مختصر کر دیا ہے جبکہ وزیر خارجہ جو اس وقت یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں نان الائنیڈ موومنٹ کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں انہوں نے بھی اپنا دورہ مختصر کر دیا ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ سے سوال کیا گیا کہ ’ایرانی فوجیں پھر سے حملے کی تیاری کر رہی ہیں؟ کیا ایران نے پاکستان سے وضاحت طلب کی ہے؟‘
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں افواہوں پر بات نہیں کروں گی لیکن پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ پچھلے دو سے تین گھنٹے میں مجھے کسی بات چیت کا علم نہیں۔‘
پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تک مجھے کسی تیسرے فریق کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کا کوئی علم نہیں۔‘
اس سے قبل اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’آج (جمعرات کی) صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط اور خاص طور پر ٹارگٹڈ فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن، جس کا کوڈ نام ’مرگ بار سرمچار‘ ہے، کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے۔‘
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ کئی سالوں کے دوران ایران کے ساتھ ہماری بات چیت کے دوران پاکستان نے ایران کے اندر خود کو سرمچار کہنے والے پاکستانی نژاد دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے بارے میں اپنے سنگین خدشات کا مسلسل اظہار کیا ہے اور پاکستان نے ان دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئرز بھی شیئر کیے ہیں تاہم ہمارے سنجیدہ تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔‘
بیان کے مطابق: ’آج صبح کی کارروائی ان نام نہاد سرمچاروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔‘
دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کارروائی تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کا مظہر ہے۔ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کا کامیاب انعقاد بھی پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔‘
بیان کے مطابق پاکستان ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے۔ آج کی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا حصول تھا، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد پر عمل پیرا ہے جس میں تمام رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری شامل ہے۔ ان اصولوں کی رہنمائی میں اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے جائز حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کبھی بھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی بہانے یا حالات کے پیش نظر چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’ایران ایک برادر ملک ہے اور پاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے بہت عزت اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بات چیت اور تعاون پر زور دیا ہے اور مستقبل میں بھی مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے پریس ٹی وی نے خبر دی ہے کہ ملک کے جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان میں متعدد دھماکوں میں سات غیر ایرانی شہریوں کی اموات ہوئی ہیں۔
ایک ایرانی سکیورٹی اہلکار نے پریس ٹی وی کو بتایا کہ جمعرات کی صبح سویرے پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ سیستان اور بلوچستان کے جنوب مشرقی شہر سراوان کے آس پاس کے مختلف علاقوں میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
صوبے کے نائب گورنر علی رضا مرہماتی نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ایرانی سکیورٹی حکام اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جان سے جانے والوں میں تین خواتین اور چار بچے شامل ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے صوبہ سیستان بلوچستان کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ ’سراوان شہر کے آس پاس کے کئی علاقوں میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔‘
افغانستان کا اظہار تشویش اور تحمل کی اپیل
پاکستان اور ایران دونوں کے ہمسایہ ملک افغانستان کی وزارت خارجہ نے ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کو تشویشناک قرار دیا ہے اور دونوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترجمان افغان وزارت خارجہ عبدالقہار بلخی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’طویل عرصے بعد خطے میں امن اور استحکام قائم ہوا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کو علاقائی استحکام کو مضبوط بنانے کے لیے کوشش اور سفارتی ذرائع سے متنازعہ امور پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔‘
د افغانستان اسلامي امارت د بهرنیو چارو وزارت د ایران اسلامي جمهوریت او پاکستان اسلامي جمهوریت ترمنځ وروستی تاوتریخوالی د اندیښنې وړ بولي او په دواړو ګاونډیو هیوادونو غږ کوي چې له زغم څخه کار واخلي. pic.twitter.com/UX5ypDXijs
— Abdul Qahar Balkhi (@QaharBalkhi) January 18, 2024
معروف صحافی مشرف زیدی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’برسوں سے ایران نے پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو فعال طور پر تیار کیا ہے- سب سے بدتر بات یہ ہے کہ ایران پاکستانی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے انڈیا کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ سطحی طور پر پاکستان کا ان گروہوں کو نشانہ بنانا دفاعی اقدام ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’مسئلہ یہ ہے کہ فروری 2019 میں انڈیا یا افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے برعکس دنیا کو آیت اللہ سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ایران کی حکمت عملی کی نوعیت اس طرح ہے کہ ایک وسیع تنازع سخت گیر رہنماؤں کے ایران پر کنٹرول کو مستحکم کرنے میں مدد کرتا ہے اور ان تنازعات کی توثیق کرتا ہے جس کو وہ پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے وسیع علاقے میں فعال طور پر فروغ دیتا ہے۔‘
مشرف زیدی کا مزید کہنا تھا کہ ایران اپنے فائدے کے لیے ایک نیا تنازع چاہتا ہے کیونکہ انقلابی حکومت اپنے ’عظیم وژن‘ کے لیے لڑے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس طرح یہ جنگ کی ایک مستقل حالت کے ذریعے اپنے وژن کے ساتھ منسلک لوگوں کو متحرک کرتا ہے۔‘
ان کے بقول: ’اس کے برعکس پاکستان، خواہ اس کے بارے میں جان بوجھ کر اور بڑا پروپیگنڈہ کیوں نہ کیا جائے، علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے ایک نمونہ ہے۔ پاکستان کے لیے جنگ ضروری نہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ پاکستان کی بدتر اقتصادی حالت تاریخی طور پر اس علاقائی عدم استحکام کے ساتھ منسلک ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔