’نیوٹرل‘ کا لفظ مشکوک ہو چکا: خالد مقبول

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ فروری کے انتخابات کے حوالے سے ’ادارے‘ نیوٹرل رہے گے اور ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ’نیوٹرل‘ کا لفظ مشکوک ہو چکا ہے اور اداروں کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کی تاریخ کو دہرایا نہیں جائے گا۔

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے وعدے اور سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سیاسی اثر رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی سے خصوصی گفتگو کی اور ان سے حالیہ عام انتخابات اور ان کی جماعت کے تحفظات کے حوالے سے جاننا چاہا، جس نے اس سے قبل مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

انٹرویو کے دوران خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ مردم شماری کے دوران کراچی کی آبادی میں کمی کے باعث شہرِ قائد میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔

’ابھی بھی کراچی کے 75 لاکھ سے ایک کروڑ لوگوں کو کم گنا گیا ہے اور جب گنتی ہی درست نہیں ہوئی تو پھر کیسے شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ حلقہ بندیوں میں کراچی شہر کو آدھا کر دیا گیا۔ یہاں قومی اسمبلی کی 30 نشستیں ہونی چاہیے تھیں جب کہ کراچی کی ووٹرز لسٹیں بھی مشکوک ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا، اس لیے لگتا ہے کہ نتائج تو (ایم کیو ایم کے) حق میں آجائیں گے لیکن کراچی کو ایم کیو ایم کے نتائج سے زیادہ شفافیت اور نمائندگی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ کراچی اور سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات نہیں ہو گی اور نہ ہی انتخابات میں کسی کو ٹیمپرنگ کرنے دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’دس سال سے جو غیر اعلانیہ پابندی تھی وہ ختم ہو رہی ہے اور ایم کیو ایم واپس آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کی مجبوری ہے کہ اسے اپنے ریکارڈ خود توڑنے پڑتے ہیں۔‘

کراچی میں حال ہی میں ایم کیو ایم کے جلسے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ 10 سالوں میں سب سے بڑا جلسہ ہے۔ کسی اور نے کراچی میں اس کا آدھا جلسہ بھی نہیں کیا۔

بقول خالد مقبول: ’خوف کی فضا کم ہوئی ہے۔ لوگ سڑکوں پر آ رہے ہیں اور گہما گہمی نظر آ رہی ہے۔ کراچی اپنے اصل کی طرف لوٹے گا تو پاکستان کے مسائل اور معیشت میں بہتری کا آغاز ہو گا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کراچی، کراچی والوں کا ہو گا اور اب مصنوعی طریقوں سے ایم کیو ایم کے گروپ بنا کر کراچی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

’ابھی تک کوئی اصل اور پر خلوص کوشش کراچی کے دل کو جیتنے کی نہیں ہوئی۔ صرف قبضے کی کوشش ہوئی، اس لیے کراچی دوبارہ ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ کراچی کے عوام کا دل ایم کیو ایم نے جیت لیا ہے۔‘

آٹھ فروری کے انتخابات کی شفافیت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم نے گذشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور چند دنوں میں ثابت ہو گیا تھا کہ کراچی کی 70 سے 75 یوسیز کم تھیں۔‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فروری کے عام انتخابات میں بائیکاٹ کا کوئی امکان نہیں۔

’ہم کراچی کے عوام تک پہنچ گئے ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ مسائل سمجھنے والے ان کے اپنے لوگ ان کے درمیان آگئے ہیں۔‘

انتخابی اتحاد سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’کچھ سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے لیکن کہیں مضبوط اتحاد نہیں بنا۔ ایم کیو ایم انتخابی اتحاد پر یقین نہیں رکھتی۔

’ہم نہیں چاہ رہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں۔ سندھ میں مدد کر سکتے ہیں، اگر کوئی ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتا ہے تو بات کر لے، لیکن کراچی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کریں گے۔ سب ایم کیو ایم کے ووٹ کے ذریعے جیتنا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں۔‘

ایم کیو ایم کے رہنما نے بتایا کہ ان کی جماعت نے اس مرتبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بھی امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

’ہم ان علاقوں میں الیکشن جیتنے نہیں بلکہ جتانے گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری روزی روٹی اس سیاست سے نہیں۔ ہمارے بچے الیکشن نہیں لڑنے والے۔ سیاست ہمارا پیشہ نہیں عبادت ہے۔

بقول خالد مقبول صدیقی: ’ایم کیو ایم کامیاب ہو نہ ہو، پاکستان میں ایم کیو ایم کی طرز سیاست کامیاب چاہتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست