امریکہ: نائٹروجن گیس سے سزائے موت کا نیا طریقہ پہلی بار استعمال

58 سالہ کینتھ یوجین سمتھ کو 1988 میں ایک پادری کی بیوی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی، وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رہائی کے منتظر تھے۔

الابامہ کی ہولمن جیل کے بیرونی حصار میں پولیس سکیورٹی موجود ہے (روئٹرز)

امریکہ کی ریاست الاباما میں جمعرات کو نائٹروجن گیس کا استعمال کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت دے دی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ میں اس طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے موت کی سزا دی گئی ہو۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ریاست کے اٹارنی جنرل نے ایک بیان میں کہا کہ کینتھ یوجین سمتھ نامی مجرم کو جمعرات کی شب مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجکر 25 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا۔

اٹارنی جنرل سٹیو مارشل نے مزید کہا: ’انصاف فراہم کر دیا گیا۔ آج رات کینتھ سمتھ کو ان کے گھناؤنے فعل کے لیے سزائے موت دے دی گئی، جو انہوں نے 35 سال پہلے انجام دیا تھا۔‘

58 سالہ سمتھ کو 1988 میں ایک پادری کی بیوی الزبتھ سینیٹ کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رہائی کے منتظر تھے۔

سمتھ اور ان کے ایک ساتھی جان پارکر کو 1988 میں الزبتھ سینیٹ کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا، جس کے لیے پادری نے دونوں کو ایک ایک ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ پارکر کو 2010 میں مہلک انجکشن کے ذریعے پھانسی دی گئی تھی۔

چارلس سینیٹ، جنہوں نے اپنی بیوی کے قتل کا بندوبست کیا تھا، نے اس قتل کے ایک ہفتے بعد خود کشی کر لی تھی۔

کینتھ یوجین سمتھ کو نائٹروجن ہائپوکسیا کے ذریعے الاباما کے شہر ایٹمور کی ہولمین جیل میں سزائے موت دی گئی۔ اس عمل کے دوران پائپ اور ماسک کے ذریعے انہیں نائٹروجن گیس دی گئی، جس سے ان کا دم گھٹ گیا۔

مقامی نیوز ویب سائٹ اے ایل ڈاٹ کام نے رپورٹ کیا کہ میڈیا کے عینی شاہدین کے مطابق وہ ’تقریباً دو سے چار منٹ تک شدت سے تڑپتے رہے جس کے بعد تقریباً پانچ منٹ سانس لینے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔‘

الاباما کے اصلاحی ادارے کے کمشنر جان ہیم نے صحافیوں کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ سمتھ نے پہلے جتنی دیر ممکن ہوا اپنی سانس روکے رکھی اور اس کے بعد توقع کے مطابق وہ گیس کی وجہ سے تڑپنا شروع ہو گئے۔

نیوز ویب سائٹ نے کہا کہ میڈیا کے لیے وٹنس روم کا پردہ شام سات بجکر 53 منٹ پر کھولا گیا، جس کے 35 منٹ بعد سمتھ کو مردہ قرار دے دیا گیا۔

ڈیتھ پینالٹی انفارمیشن سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رابن مہر نے اس سے قبل کہا تھا کہ الاباما میں سزائے موت کا ایک ایسا غیر ثابت شدہ  طریقہ اپنایا جا رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آزمایا گیا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اس سے پہلے کبھی بھی امریکہ میں یا دنیا میں جہاں تک ہم جانتے ہیں، کسی کو سزائے موت دینے کے لیے یہ طریقہ استعمال نہیں کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل سمتھ کی نومبر 2022 میں سزائے موت کی ایک کوشش اس وقت ناکام ہو گئی تھی، جب جیل کے حکام مہلک انجکشن لگانے کے لیے ان کی رَگ تلاش کرنے سے قاصر رہے۔

سزائے موت کا مشاہدہ کرنے والے مقامی نشریاتی ادارے سی بی ایس سے وابستہ رپورٹر نے بتایا کہ جمعرات کو سمتھ کے آخری الفاظ تھے کہ ’آج رات الاباما نے انسانیت کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا۔‘

سمتھ کا مزید کہنا تھا: ’میں محبت، امن اور روشنی کے ساتھ جا رہا ہوں۔ میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔ مجھے سپورٹ کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ میں آپ سب سے پیار کرتا ہوں۔‘

الاباما ڈپارٹمنٹ آف کریکشنز کے مطابق سمتھ نے جمعرات کی صبح سٹیک، ہیش براؤنز اور انڈے کے ساتھ اپنا آخری کھانا کھایا۔

امریکہ میں مہلک گیس کا استعمال کرتے ہوئے آخری سزائے موت 1999 میں دی گئی تھی، جب قتل کے ایک مجرم کو ہائیڈروجن سائینائیڈ گیس کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

2023 میں امریکہ بھر میں 24 موت کی سزائیں دی گئیں۔ ان سب کی جان مہلک انجیکشن کے ذریعے لی گئی۔

الاباما، اوکلاہوما اور مسیسیپی کے ساتھ ان تین امریکی ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں نائٹروجن ہائپوکسیا کو سزائے موت کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

جینیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینہ شمداسانی نے گذشتہ ہفتے الاباما حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ سمتھ کو اس طریقے سے سزائے موت نہ دیں۔

شمداسانی نے کہا کہ یہ طریقہ کار بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت پرتشدد، ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کے برابر ہو سکتا ہے۔

اگرچہ نائٹروجن گیس پہلے کبھی بھی امریکہ میں انسانوں کو مارنے کے لیے استعمال نہیں کی گئی تھی لیکن بعض اوقات اسے جانوروں کو ہلاک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن شمداسانی نے نشاندہی کی کہ یہاں تک کہ امریکن ویٹرنری میڈیکل ایسوسی ایشن بھی بڑے جانوروں کو اس طریقے سے مارنے کے لیے پہلے انہیں سکون آور دوا دینے کا مشورہ دیتی ہے، تاہم الاباما حکام نائٹروجن کے استعمال سے قبل سکون آور دوا کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔

دوسری جانب ریاست الاباما نے سزائے موت کے اس طریقہ کار کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ’شاید اب تک وضع کردہ سزائے موت کا سب سے زیادہ انسانی طریقہ ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ