الیکشن 2024: ’قبائلی اضلاع میں وہ جذبہ نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا‘

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں فروری کے انتخابات کے حوالے سے سرگرمیاں ماضی کی نسبت کم ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ امن و امان کی صورت حال کو قرار دیا جاتا ہے۔

قبائلی ضلع باجوڑ میں ایک انتخابی کارنر میٹنگ جو ذاتی حجرے میں منعقد کی گئی (ہارون رشید) 

پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے میدان سج چکا ہے لیکن خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں امن و امان کی خراب صورت حال الیکشنز کے دوران عوام اور امیدواروں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ 

ماضی میں قبائلی اضلاع میں صرف قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد ہوتا تھا تاہم 2018 میں سابقہ قبائلی ایجنسیوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ان علاقوں میں جماعتی بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوتے ہیں۔ 

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع کی عوام نے 2018 کے عام انتخابات اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات میں بھرپوز انداز میں انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا۔

شمالی وزیرستان

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سکیورٹی کے لحاظ سے سب سے متاثرہ ضلع ہے لیکن یہاں انتخابی مہمات پھر بھی جاری ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ضلع کے تینوں سب ڈویژنز (میرانشاہ ، میرعلی اور رزمک) میں امیدوار انتخابی مہمات  میں مصروف ہیں تقریباً ہر گاؤں میں الیکشنز کے حوالے سے کارنر میٹنگز اور جلسے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں سکیورٹی صورت حال ابتر ہونے کے باوجود امیدوار ذاتی سیکورٹی کے حصار میں ووٹرز تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شمالی وزیرستان پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں اسی تنظیم کے بانی اراکین میں شامل محسن داوڑ 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی اسی نشست کے لیے کامیاب ہوئے تھے اور فروری کے چناؤ کے لیے ایک مرتبہ پھر امیدوار ہیں۔ 

پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نہیں ہے تاہم اس کے سپورٹرز اور ہمدرد محسن داوڑ کی حمایت کر رہے ہیں۔ 

جنوبی وزیرستان

جنوبی وزیرستان کے صحافی سعیدالرحمان کے مطابق شمالی وزیرستان کے مقابلے میں ان کے علاقے میں امن و امان کی صورت حال قدرے بہتر ہے اور انتخابی مہمات بھی جاری ہیں۔

اس حلقے سے پی ٹی ایم کے بانی اراکین میں شامل اور سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر بھی امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ جمیعت علمائے اسلام ف کے مولانا جمال الدین، اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار زبیر وزیر کے ساتھ ہے۔ 

باجوڑ

ضلع باجوڑ میں قومی اسمبلی کی ایک اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے چار حلقے ہیں۔ 

ماضی میں اس حلقے کو باجوڑ کے قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 43 کہا جاتا تھا جبکہ 2018 میں اس کا نام این اے 40 رکھ دیا گیا تھا لیکن قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد نئی حد بندیوں کی وجہ سے باجوڑ کے قومی اسمبلی کے حلقے کو این اے آٹھ کا نام دیا گیا ہے۔

باجوڑ سے اب ایک حلقہ کم بھی کر دیا گیا کیونکہ ضم ہونے سے پہلے باجوڑ میں قومی اسمبلی کے دو حلقے ہوا کرتے تھے ۔

2002 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے مولانا محمد صادق اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے جب کہ بعد میں خیبر پختونخوا کے سابق گورنر انجنیئر شوکت اللہ نے 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 

2013 میں بسم اللہ خان جب کہ 2018 میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے گل داد خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔

ماضی قبائلی علاقوں حصہ ہونے کے باعث اس حلقے میں بھی سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ نسبتاً کم ہے اگرچہ انضمام کے بعد سے مختلف پارٹیاں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

باجوڑ میں حالیہ دنوں میں انتخابی امیدواروں پر مسلح حملوں کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ تین جنوری کو جمعیت علما اسلام ف کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار قاری خیر اللہ کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم وہ محفوظ رہے تھے۔ 

باجوڑ کے مقامی صحافی بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ باجوڑ میں امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے امیدوار اور عوام میں خوف ہے۔

بلال یاسر نے بتایا، ’سیاسی جلسوں اور ریلیوں کے بجائے ذاتی حجروں میں کارنر میٹنگز ہو رہی ہیں۔ کیونکہ سکیورٹی صورت حال کے باعث عام قبائلی سیاسی پروگراموں میں جانے سے کتراتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح باجوڑ میں شخصیات کا ووٹ زیادہ ہے تاہم بعض تگڑے امیدواروں کو سیاسی جماعتوں کی حمایت ضرور حاصل ہے۔‘

باجوڑ میں  قومی اسمبلی کے لیے سابق گورنر خیبر پختونخوا انجنیئر شوکت اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے مولانا خان زیب، جماعت اسلامی کے سابق رکن اسمبلی ہارون رشید اور کچھ دوسرے آزاد امیدور انتخابی دنگل میں موجود ہیں۔ 

کرم  

ضلع کرم میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ این اے 37 ہے جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔

یہ ضلع اپر اور لوئر کرم پر مشتمل ہے۔ اپر کرم میں اہم تحصیل پاڑا چنار ہے جبکہ لوئر کرم میں صدہ اور آس پاس کے علاقے شامل ہیں۔ 

یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے استعفوں کے بعد پارٹی کے چیئرمین عمران خان امیدوار تھے اور انہوں نے جمعیت علما اسلام کے امیدوار کو شکست دی تھی۔

ضلع کرم کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے پہلے دو حلقے تھے جن میں ایک حلقے میں شیعہ آبادی والا علاقہ پاڑا چنار شامل تھا جبکہ لوئر کرم میں دوسرا حلقہ تھا، جس میں سنی آبادی کی اکثریت تھی۔ 

ضلع کرم میں سیاسی ماحول کے بارے میں مقامی صحافی ریحان محمد نے بتایا کہ حلقہ ایک ہونے کے باعث انتخابی مہمات ویسے نہیں ہیں جو ماضی میں ہوتی تھیں۔ 

انہوں نے بتایا، ’حالیہ دنوں میں کچھ فرقہ ورانہ مسائل کی وجہ سے انتخابی مہمات متاثر ہوئی ہیں۔ پہلے الگ الگ حلقے تھے تو شعہ آبادی میں الگ مہمات اور سنی آبادی میں الگ مہمات ہوتی تھیں لیکن اب لوگ آزادانہ ایک دوسرے کے علاقوں میں نہیں جا سکتے۔’

ریحان محمد کے خیال میں انتخابی مہمات کی سست روی کی ایک وجہ امن و امان کی صورت حال بھی ہے۔

’ضلع کی مرکزی شاہراہ شام سے علی الصبح تک بند رہتی ہے جس سے عوام کو نقل و حرکت میں بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔‘

اس حلقے سے قومی اسمبلی کے لیے سابق رکن اسمبلی ساجد حسین طوری، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمران خان سونامی، جمیعت علما اسلام کے مولانا عصمت اللہ کے مابین ٹاکرہ ہے۔ 

خیبر 

خیبر پشاور سے متصل اہم قبائلی ضلع ہے، جو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 27 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے تین حلقوں پر مشتمل ہے۔ 

مقامی صحافی ساجد علی کوکی خیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتخابی ماحول ماضی کی مانند جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔

ساجد کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر پابندیوں سے بھی انتخابی سرگرمیاں ماند ہیں۔

اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے شاہ جی گل آفریدی، جو ماضی میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں تھے اور اس سے پہلے آزاد حیثیت سے لڑتے تھے، پی ٹی آئی کے اقبال آفریدی اور جمیعت علما اسلام کے سابق رکن قومی اسمبلی حمید اللہ جان آفریدی اہم امیدوار ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دوسرے مقامی صحافی عبدالقیوم آفریدی کا خیال تھا کہ دوسرے قبائلی اضلاع کی طرح خیبر میں بھی شحصیات کا ووٹ موجود ہے اور سیاسی جماعتوں سے بلا امتیاز وہ ووٹ انہی امیدواروں کو پڑتا ہے۔

مہمند

ضلع مہمند سے قومی اسمبلی کی ایک اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی دو نشستوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔

مقامی صحافی ارشد مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دیگر قبائلی اضلاع کی طرح مہمند میں بھی 2018 کی نسبت ووٹرز کے جوش و خروش میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ارشد مہمند کے کے خیال میں مخصوص سیاسی جماعت پر پابندیاں بھی عام لوگوں میں عدم دلچسپی کی وجہ بن رہی ہیں۔

اس حلقے سے جمیعت علما اسلام کے عارف حقانی، آزاد امیدوار بلال الرحمان اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ساجد مہمند کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

ارشد مہمند کے مطابق سکیورٹی کی صورت حال دیگر قبائلی اضلاع کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں مہمند میں شدت پسندی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

اورکزئی

ضلع اورکزئی صوبائی اسمبلی کی ایک حلقہ پی کے 94 پر مشتمل ہے جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے اورکزئی کو ضلع ہنگو کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر اورکزئی میں انتخابات کے لیے امن و امان کی صورت حال سازگار ہے اور صوبائی اسمبلی کے حلقے کے لیے سیاسی جماعتوں نے امیدوار میدان میں اتار ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست