آج الیکشن کا دن ہے اور میں الجھن میں ہوں کہ کس کو ووٹ دوں۔
میری پہلی پہلی پریشانی یہ ہے کہ میرے حلقے میں سارے امیدوار ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔
سنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت باقاعدہ چھانٹی کے بعد یہ طے کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔
مجھے تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسی نیک ہستیاں اتنی بڑی تعداد میں میرے حلقے میں رہتی ہیں۔ میں اب سر پکڑ کر بیٹھا ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے اللہ والوں میں سے کس کو ووٹ دوں اور کس کو نہ دوں۔
کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب کو ووٹ دینا چاہیے لیکن معلوم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔
ایک ماہر قانون سے رابطہ کیا کہ کوئی قانونی گنجائش نکالو تا کہ سب بزرگوں کو ووٹ دے سکوں تو اس نے کہا کہ جو تم چاہتے ہو یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اس نے مفت قانونی مشورہ دیا ہے کہ میں پولنگ سٹیشن جانے کی بجائے کسی اچھے طبیب کے پاس چلا جاؤں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میں ووٹ ڈالنے جاؤں یا طبیب کے پاس جاؤں۔
دوسری پریشانی یہ بنی کہ ابھی ابھی ایک سیانے نے بتایا ہے کہ ووٹوں سے بننے والا وزیراعظم یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے حکمت اسی میں ہے کہ صرف نگران وزیراعظم کو منتخب کیا جائے۔ اس نے سمجھایا کہ منتخب وزیراعظم پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ اس بے چارے کی حکومت مدت ہی پوری نہیں کر پاتی اور بعد میں وہ سیدھا جیل جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اس کو ووٹ دوں گا جو نگران وزیراعظم بننا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ ووٹ سے نگران وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ ووٹوں سے صرف منتخب وزیراعظم بنتے ہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے ان برگزیدہ لوگوں میں سے کسی کو ووٹ دے کر مصیبت میں ڈالنا چاہیے؟
ابھی اسی شش و پنج ہی میں تھا کہ ایک سیانے نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے والا آدمی اہم نہیں ہوتا، ووٹ گننے والا اہم ہوتا ہے۔ میں نے اس افواہ پر کان تو بالکل نہیں دھرے لیکن سچی بات ہے کہ اپنی اس ناقدری پر دل کچھ پھیکا سا ہو گیا ہے۔
اسی پریشانی میں سوچا کہ نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریر سنتا ہوں اور جو مشورہ یہ دیں گے، اس پر عمل کروں گا۔ بلاول صاحب فرمانے لگے کہ پرانے سیاست دانوں کو ہرگز ووٹ نہ دینا اور میاں صاحب نے حکم دیا کہ باریاں لینے والوں کو تو بالکل بھی ووٹ نہ دینا۔ میں نے ان دونوں کی بات پلے باندھ لی اور ان دونوں کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری الجھن مزید بڑھ گئی کہ اب کیا کروں۔
ایک خیال آیا کہ اب لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کا خطاب بھی سن لوں اور پھر فیصلہ کر لوں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی سماعتوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ یہ عزیمت کا سفر ہے اور اب مزید ان کے بس کی بات نہیں۔
پھر سوچا میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دے دیتا ہوں لیکن معلوم ہوا کہ ان کا تو مخاطب ووٹر ہی صرف ایک مکتب فکر ہے ، ان کے امیدواران کی اکثریت بھی اسی پس منظر سے ہے۔ انہیں ایک عامی کے ووٹ کی جب ضرورت ہی نہیں تو مجھے اس تکلف سے انہیں بد مزہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
پھر میں نے مختلف جماعتوں کے منشور دیکھے، یہ اقوالِ زریں کا خوب صورت مجموعہ تھے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ایک بار پھر سب جماعتوں کو ووٹ دینے کا سوچا مگر یاد آ یا کہ اس کی تو اجازت ہی نہیں۔
روایتی سیاست سے بے زاری تھی مگر تبدیلی کے سونامی نے جو تارا مسیحائی کی تو سارے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ عالم بھی نہیں ہے کہ کوئی نعروں اور جذبات سے بے وقوف بنا لے کیونکہ اب سبھی کا نامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ سبھی اقتدار میں رہ چکے اور سبھی کم و بیش ایک جیسے نکلے، بلکہ جنہیں تبدیلی کا دعویٰ تھا ان کے دستِ ہنر نے اس معاشرے کو دوسروں سے زیادہ گھاؤ دیے۔
بھٹو صاحب زندہ ہیں لیکن اتفاق دیکھیے کہ ان سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ جہاں جہاں شعور کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا وجود سمٹتا جا رہا ہے۔
ووٹ کو عزت کیسے دینی ہے یہ اب کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ جو دوسروں کے نامہ سیاہ کی تیرگی تھی وہ اپنی زلف میں آئی تو ضد ہے کہ اسے حسن کہا جائے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حسبِ ضرورت اسلام دشمن قرار دے کر دونوں کی قربت میں رہنے والے مولانا ویسے ہی اقتدار کے کوہ کن ہیں، حکومت کسی کی بھی ہوئی کابینہ میں ان کا حصہ بقدر جثہ یقینی ہے۔
تبدیلی ویسے ہی ایک بھیانک خواب نکلی۔ سونامی، اسم با مسمی ثابت ہوا۔
اب پھر ووٹ کس کو دیا جائے اور کیوں دیا جائے؟ اگر آپ میری رہنمائی کر دیں تو ابھی جا کر جلدی سے ووٹ ڈال کر اپنا قومی فریضہ ادا کر آؤں۔
لیکن اگر آپ میری رہنمائی نہ بھی فرمائی تو آپ کی عین نوازش ہو گی کیونکہ خوش قسمتی سے یہ سب وہ لوگ ہیں جو آرٹیکل 62 کے تحت مستند قسم کے نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار ، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔
ان میں سے جو بھی جیت جائے، فتح حق کی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔