پاکستان کو نیا سال مبارک۔ سیاست پر لکھنا اور بولنا اتنا مشکل ہو چکا ہے کہ ایک کالم جو ہمیشہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کی مار رہا اب اس کے لیے کئی گھنٹے سوچنا پڑتا ہے کہ کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے۔
آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے ہیں، جن میں ایک جماعت کے گلے نو مئی ایسا پڑ چکا ہے کہ شاید ہی ان کے لیے 10 مئی کا سورج کبھی چڑھ پائے۔
انہی سطور میں بانی تحریک انصاف کو نوشتہ دیوار پڑھ کر بار بار سناتے رہے، تحریک انصاف کے دوستوں کے کان بھی برابر بھرتے رہے کہ آپ کھائی میں تو گر ہی چکے ہیں لیکن اب کھودنا تو بند کر دیں؟ لیکن ان کی کون سنتا، وہ تو بیچارے آخری بال تک ہم سے پوچھتے رہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟
جواباً دہائی یہی دیتے رہے کہ امپائر کے نیوٹرل ہونے کے بعد تماشائی تک بدل چکے ہیں اور اب آپ کی بہترین کوور ڈرائیو کو بھی داد نہیں ملنی لہٰذا نوشتہ دیوار یہی ہے کہ بلا بغل میں ڈال کر چلتے بنیں اور اگلے ورلڈ کپ کی تیاری پکڑیں، کیونکہ جن تگڑی ٹیموں کو آپ کے لیے میدان سے باہر نکالا گیا، وہ ٹیمیں اب بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتاری جا چکی ہیں۔
امپائر اور تماشائی تک اپنے نہیں رہے تو بہتری اسی میں ہے کہ اپنا بلا اور سازوسامان لے کر اگلی باری کا انتظار کریں۔
لیکن خان کے کان بھرنے والوں نے میچ ختم ہونے کے بعد بھی کپتان کو جیت کے سہانے خواب دکھا دکھا کر سیاسی طور پر فارغ کروا دیا۔ پھر یہ کاغذی انقلابی خود پہلی فرصت میں ایسے اڑے کہ اڑانے والے بھی دنگ رہ گئے۔ یہ قصے پھر صحیح کہ ان میں کون کون سے کردار سرفہرست تھے!
انتخابات کے بغیر پاکستان کا آگے چلنا ناممکن ہے لیکن ان انتخابات کو ’جنرل الیکشن‘ کی بجائے ’جنرل سلیکشن‘ پکارنا اور ’انجینیئرڈ الیکشن‘ کا تاثر دینا خطرے سے خالی نہیں، انتخابات یا تو شفاف ہوں اور یا نہ ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یقیناً تحریک انصاف سے غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈرز ہوئے اور ابھی تک ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے جرائم کیے، ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ ملک کی قیمت پر کوئی سیاست کرنے کا سوچے بھی نہ لیکن اگر پوری پوری جماعت کو ہی فارغ کر دیا جائے تو اس سے معاملات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے۔
سیاسی جمود، افراتفری اور غیر یقینی کے خاتمے کا واحد حل اور آگے بڑھنا صرف اور صرف شفاف انتخابات ہی پنہا ہے۔
تحریک انصاف کو بھی اب یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی کہ وہ دیوار سے ٹکریں مار مار کر اپنا اتنا نقصان کر چکی ہے کہ اس وقت اٹھنے کے قابل نہیں رہی، اب جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کا مداوا ہونا چاہیے نہ کہ مزید غلطیاں۔ ویسے بھی وہ سیاسی جماعت ریاست سے نہیں لڑ سکتی جس کو بنایا اور چلایا ہی خود مقتدرہ نے ہو۔
اس وقت پی ٹی آئی مکمل طور پر ہائی جیک ہو چکی ہے۔ علی محمد خان جیسے پارٹی کے وفادار سیاسی چہروں کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا، کچھ وکلا حضرات کی لاٹری نکل آئی اور ساتھ میں بیرون ملک بیٹھے وی لاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی بھی، جو پارٹی کی حمایت میں صرف اپنی پروفائل تو بنا رہے ہیں لیکن پارٹی کا ستیاناس کر کے۔
ایکس پر ٹرینڈز چلا کر نہ تو ریاست کو شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔
جیتنے کے لیے کھیل میں رہنا ضروری ہوتا ہے لیکن جس ڈگر پر پارٹی کو چلایا گیا اس سے ریفری کے پاس ایک ہی آپشن بچ جاتا ہے اور وہ ہے ریڈ کارڈ، جس کے بعد کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی جانا پڑتا ہے۔
بہرحال امید رکھنی چاہیے کہ 2024 گذشتہ برس کی طرح ملک اور عوام کے لیے ہنگامہ خیز نہیں ہو گا لیکن سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام اور سکیورٹی، تین ایسے بڑے چیلنج ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے صرف امید پر کام نہیں چل سکتا بلکہ ریاست، سیاست اور صحافت کو مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالنا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔