پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے ’غیر شفاف‘ الیکشن مسترد کر دیے

پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات، دونوں جماعتوں کا اتفاق کہ الیکشن غیر شفاف تھے۔

15 فروری رات 11 بج کر 55 منٹ

پاکستان تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام نے کہا ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے لہٰذا وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔

جمعرات کی رات پی ٹی آئی کے وفد نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ دونوں جماعتیں متفق ہیں کہ الیکشن صاف، شفاف اور غیر جانبدارنہ نہیں تھے لہٰذا دونوں جماعتیں حالیہ عام انتخابات کو مسترد کرتی ہیں۔

جے یو آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انتخابات کے شفاف نہ ہونے پر تو اتفاق ہے لیکن اس حوالے سے آگے کیسے بڑھنا ہے اس کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔

پی ٹی آئی وفد میں شامل بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کا اتفاق ہے کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت 17 فروری کو دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کرے گی۔

پی ٹی آئی کے وفد میں اسد قیصر، عامر ڈوگر، بیرسٹرسیف، فضل محمد اور عمیر نیازی شامل تھے جبکہ جے یو آئی کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے علاوہ انجینیئر ضیا الرحمان، سینیٹر طلحہ محمود،  اسلم غوری، مفتی روزی خان، حافظ حمداللہ، اور صاحب زادہ اسجد محمود نے بات چیت میں شرکت کی۔


چوہدری شجاعت حسین کی پرویز الہیٰ سے اڈیالہ جیل میں ’غیر سیاسی‘ ملاقات

15 فروری رات 7 بج کر 54 منٹ

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی اڈیالہ جیل میں اپنے بہنوئی اور تحریک انصاف کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ سے جمعرات کو ملاقات ہوئی ہے۔

مسلم لیگ کے ترجمان مصطفیٰ ملک نے ایک بیان میں ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات میں چوہدری وجاہت حسین، چوہدری شافع حسین ، چوہدری سالک حسین، اور منتہا اشرف بھی شامل تھے۔

ترجمان کے مطابق ملاقات مکمل طور پر ’غیر سیاسی‘ تھی اور ملاقات کو سیاسی رنگ دینا غلط ہے۔


15 فروری شام 7 بجے

پاکستان تحریک انصاف نے میاں اسلم کو پنجاب میں بطور وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے راول پنڈی میں اڈیالہ جیل سے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ میاں اسلم پنجاب کی وزارت اعلیٰ جبکہ سالار خان کاکڑ کو بلوچستان کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عقیب اللہ خان خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر کے امیدوار ہوں گے جبکہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے امیدواروں کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

بیرسٹر گوہر نے پی پی پی، پی ایم ایل ن اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’عمران خان کی ہدایات کے مطابق ہم ان پارٹیوں سے اتحاد نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم مکمل مینڈیٹ حاصل کرنے تک مضبوط اپوزیشن کریں گے، ہم پنجاب، مرکز اور کے پی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔‘

انہوں نے الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر زور دیا کہ وہ ’جعلی مینڈیٹ‘ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر پی ٹی آئی کے کیسز کو سنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے اور وفاق اور پنجاب میں اپنا کیس لڑنے پر تفصیلی غور کیا ہے۔’ ہماری خان صاحب سے الیکشن پر بات ہوئی ہے، ہمارا ماننا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق ہم نے 180 نشستیں جیتیں۔‘

بیرسٹر گوہر خان نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت ہفتہ (17 فروری) کو ملک بھر میں پرامن احتجاج کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ہم تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کر رہے ہیں چاہے وہ جی ڈی اے ہو، جماعت اسلامی ہو، جے یو آئی (ف)، ٹی ایل پی ہو، اے این پی ہو یا کوئی اور جماعت ہو جو یہ سمجھتی ہو کہ مینڈیٹ تبدیل ہوا اور دھاندلی ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی ہفتہ کی دوپہر کو پرامن احتجاج ریکارڈ کرے گی اور عوام سے درخواست کی کہ وہ اس میں شرکت کریں۔ "یہ انتخابات بہت اہم تھے [...] اور ہم اپنا مینڈیٹ چوری نہیں ہونے دیں گے۔


15 فروری دن 1 بج کر 45 منٹ

عمر ایوب خان پی ٹی آئی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نامزد

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر نے جمعرات کو کہا ہے کہ ان کی پارٹی نے عمر ایوب خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کردیا۔

جمعرات کو راولپنڈی میں بیرسٹر سیف اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں اسد قیصر نے کہا: ’عمران خان نے وزیراعظم کے امیدوار کے لیے عمر ایوب خان کو نامزد کیا ہے، وہ انشااللہ ہمارے امیدوار ہوں گے وزیراعظم کے عہدے کے لیے۔۔۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ انشا اللہ وزیراعظم ہمارا آئے گا اور عمر ایوب ہمارا نمائندہ ہوگا۔‘

تاہم تحریک انصاف کے میڈیا آفس کا کہنا تھا کہ اس قسم کی تمام نامزدگیوں کا اعلان ان کا دفتر کرتا ہے۔

عمر ایوب خان پی ٹی آئی کی سابق حکومت میں وفاقی وزیر برائے توانائی اور پھر وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے فروری 2018 میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد 13 جنوری کی رات چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتحادی حکومت بنانے پر اتفاق کیا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد سے مختلف آئینی و قانونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

انتخابی نتائج میں تاخیر کے باعث پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں اور اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے اس حوالے سے کہا: ’الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی ہے، بچہ بچہ جانتا ہے کہ جس طرح ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا جا رہا ہے تو اس حوالے سے عمران خان آج شام تک باقاعدہ تاریخ دے دیں گے، پورے ملک میں اس پر ایک احتجاجی تحریک شروع کریں گے، جس میں ہم ملک کے چاروں صوبوں میں، ضلعوں میں، ریلیاں نکالیں گے اور احتجاج کریں گے۔‘

اسد قیصر نے بتایا کہ انہیں پارٹی کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ’جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، قومی وطن پارٹی، دیگر قوم پرست اور مذہبی جماعتیں، جو احتجاج کر رہی ہیں، ان کے ساتھ آپس میں مل کر ایک حکمت عملی بنائیں گے کیونکہ یہ جو مینڈیٹ چوری ہوا ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بدترین الیکشن ہوا ہے۔

’اس الیکشن کو نہ کوئی پاکستان میں مان رہا ہے، اس الیکشن کی نہ کوئی ساکھ ہے اور نہ عالمی دنیا میں اسے کوئی سنجیدگی سے لے رہا ہے، تو اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر سیف نے بتایا کہ عمران خان نے اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کو خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے اور وہ ہمارے نئے سپیکر ہوں گے۔


امریکہ کے لیے عمران خان کا پیغام

بیرسٹر سیف نے کہا: ’انہوں (عمران خان) نے امریکہ کے حوالے سے خاص طور پر پیغام دیا ہے کہ امریکہ نے تمام الیکشن کو مانیٹر کیا، تمام ایجنسیوں نے مانیٹر کیا لیکن امریکہ کی طرف سے جس قسم کا بیان آیا ہے، اس میں مزید وزن ڈالنا چاہیے، دباؤ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جو الیکشن ہوا ہے اور اس میں جو دھاندلیاں ہوئی ہیں اور بد انتظامی کا جو مظاہرہ ہوا ہے، پاکستان تحریک انصاف کو جس طرح مختلف حربوں کے ذریعے الیکشن کے عمل سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی مذمت اور اس کے حوالے سے آواز اٹھانا امریکہ کا فرض بنتا ہے، جو امریکہ نے اس طرح سے پورا نہیں کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’خان صاحب کا یہ پیغام ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے ہر دور میں یا تو ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی ہے اور انہیں مختلف ممالک پر مسلط کیا ہے یا انہوں نے مختلف ملکوں کے کرپٹ لوگوں کو حکمران بنوایا ہے اور ان کو سپورٹ کیا ہے۔

’ایسے لوگوں کو ہمیشہ اقتدار میں سپورٹ کرکے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کی توہین کی گئی۔‘بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’عمران خان کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ امریکہ کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی کے کردار کو مزید صاف کرنے کے لیے، جمہوری بنانے کے لیے، قابل اعتماد بنانے کے لیے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر نظر رکھے، جو بھی لوگ اس میں ملوث ہیں، ان سے کہے، اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے کہ وہ اس کا سدباب کریں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ نے حالیہ دنوں میں ایک سے زائد بار پاکستان کے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل آٹھ فروری کو بھی امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا، جسے اسلام آباد کی جانب سے مسترد کیا جا چکا ہے۔

12 فروری کو میڈیا سے گفتگو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان ممالک نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو صحیح مان لیا اس لیے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ بقول نگران وزیراعظم: ’ضرورت پڑی تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اپنے قوانین کے مطابق کریں گے۔‘

انہوں نے امریکی کانگریس کے بعض اراکین کے مبینہ دھاندلی کے الزامات کو ’ذاتی رائے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی حکومت کی رائے نہیں۔

انوار الحق کا مزید کہنا تھا کہ اگر دھاندلی کسی نے کرنی ہوتی تو خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ فوج موجود تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست