پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر چیف الیکشن کمشنر سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

آٹھ فروری، 2024 کو عام انتخابات کے موقعے پر اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی عمارت نظر آ رہی ہے (انڈپینڈنٹ اردو/ ذیشان علی)

16 فروری رات 10 بجے

اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہفتے کو ممکنہ احتجاج کے حوالے سے مزید نفری طلب کر لی گئی ہے۔

اسلام آباد پولیس نے ایکس پر ایک بیان میں بتایا کہ تحریک انصاف نے تاحال احتجاج کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔

پولیس کے مطابق انتہائی سکیورٹی زون کے اندر کسی ریلی یا جلوس کی اجازت نہیں ہو گی اور سڑک بند کرنے اور غیر قانونی اجتماع کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ شہر میں ناکہ بندی اور چیکنگ سخت کر دی گئی ہے۔


16 فروری رات نو بجے

پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر چیف الیکشن کمشنر سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایکس پر کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں الزام عائد کیا گیا کہ ’الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے نو منتخب اراکینِ پارلیمان کو نہایت مضحکہ خیز تکنیکی بنیادوں پر ڈی سیٹ کرکے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی آخری سازش میں مصروف ہے۔‘

بیان کے مطابق عوام نہ تو الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنے مینڈیٹ کی توہین قبول کریں گے اور نہ ہی دستور و جمہوریت کی قبریں کھودنے والوں کو معاف کریں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ’مجرمانہ‘ کردار پر تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ صفِ اوّل کی سیاسی جماعتیں آوازیں اٹھا رہی ہیں لہٰذا ان کا کمیشن میں بیٹھنے کا مزید کوئی جواز نہیں اور وہ فی الفور مستعفیٰ ہوں۔

ایکس پر پوسٹ کے مطابق: ’بانی چیئرمین عمران خان نے عوامی مینڈیٹ کی کھلی توہین پر پوری قوم کو کل پرامن احتجاج کی کال دی ہے۔‘

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ’ہفتے کو معمولات زندگی خصوصاً کاروباری سرگرمیوں کو معطّل رکھیں اور اپنے مسترد شدہ سیاسی عناصر کے مابین اقتدار کی بندر بانٹ کا مکروہ منصوبہ ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘


16 فروری رات سات بج کر 50 منٹ

قومی اسمبلی کا ایک، پنجاب اسمبلی کے چھ نو منتخب آزاد اراکین ن لیگ میں شامل

پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک بیان میں بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک اور پنجاب اسمبلی کے چھ نو منتخب آزاد اراکین پارٹی میں شامل ہو گئے۔

بیان کے مطابق ‏قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 92 بھکر سے آزاد حیثیت میں انتخاب جیتنے والے رشید اکبر نوانی، پنجاب کے حلقے ‏پی پی 90 بھکر سے احمد نواز نوانی، پی پی 92 اور 93 بھکر سے عامر عنایت شاہانی اور پی پی 272 مظفر گڑھ سے جیتنے والے رانا عبدالمنان نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

اسی طرح ‏پی پی 205 خانیوال سے اکبر حیات ہراج اور پی پی 212 خانیوال سے اصغر حیات ہراج بھی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔

بیان میں بتایا گیا کہ ن لیگ کی سینیئر نائب صدر اور نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے ان آزاد ارکان اسمبلی سے ملاقات کی، جس میں نواز شریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔


16 فروری رات سات بجے

نئی حکومت آٹھ سے 10 ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی: جی ڈی اے رہنما پیر پگارا

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے سربراہ پیر پگارا نے کہا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق آنے والی حکومت آٹھ سے 10 ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔

انہوں نے جامشورو میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب میں الزام عائد کیا کہ عام انتخابات کے نتائج تین ماہ پہلے فروخت ہو چکے تھے، جس کی ادائیگی بھی کر دی گئی۔

انہوں نے الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا نوٹس لیا جائے۔

پیر پگارا نے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے نوجوان اور خواتین حامیوں نے رکاوٹوں کے باوجود ’معجزہ‘ کر دکھایا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے گذشتہ 20 ماہ کے دوران مہنگائی کی وجہ سے کیا ہوا؟ متوسط طبقے کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس افراط زر کے بعد افراط زر آسمان کو چھو جائے گا اور متوسط طبقے کا صفایا ہو جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’عمران خان نے توشہ خانہ سے چوری نہیں کی، وہ ایک غلطی تھی۔ میں عمران خان کو چور نہیں سمجھتا۔ کیا عمران خان سے قبل کسی وزیراعظم نے توشہ خانہ سے گاڑی نہیں لی؟ اگر لی تو پھر صرف عمران ہی کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔‘

جی ڈی اے کے رہنما نے کہا کہ ان کا احتجاج مینڈیٹ چھینے جانے کے خلاف ہے۔ ’اگر آپ اس ملک میں عزت اور انصاف نہیں دیں گے تو لوگ متبادل راستہ تلاش کریں گے۔‘


16 فروری دوپہر تین بج کر 45 منٹ پر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما سلمان اکرم راجا نے جمعے کو کہا کہ ان کی جماعت کے ساتھ عام انتخابات 2024 میں اگر دھاندلی نہ ہوئی ہوتی تو پی ٹی آئی وفاق میں اکثریت میں ہونے والی واحد جماعت ہوتی۔

ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندگان سے خطاب میں کہا کہ آٹھ اور نو فروری کو ہونے والی دھاندلی جمہوریت پر بڑا حملہ تھا اور ان کی جماعت کی ’85 سیٹیں دھاندلی سے لی واپس گئیں۔‘

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ’جعلی‘ فارم 47 بنائے گئے اور فارم 45 میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ’پھر انتخابات منعقد کرانے کا فائدہ کیا تھا؟‘

انہوں نے کہا کہ ریٹرنگ افیسر کے دفتر میں انہیں اور ان کی اہلیہ جو کہ الیکشن ایجنٹ بھی ہیں کو باہر نکال دیا گیا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی دعویٰ کیا کہ ان کے حلقوں میں انہیں دھاندلی کا سامنا کرنا پڑا۔

پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ 2024 کے انتخابات ان کی جماعت کے خلاف ’سب سے بڑے ووٹر فراڈ‘ کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کی 177 سیٹیں ہمیں ملنی چاہییں تھیں لیکن ہمیں صرف 92 ملی ہیں۔ ہم سے 85 سیٹیں دھاندلی سے واپس لے لی گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس 46 سیٹوں کا مصدقہ ڈیٹا ہے اور 39 سیٹوں کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔


16 فروری دوپہر دو بجکر 40 منٹ

پی ٹی آئی نے مبینہ دھاندلی کی تفصیلات میڈیا کو پیش کر دیں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں تفصیلات ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کی ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے کراچی میں 12 لاکھ 50 ہزار ووٹ لیے لیکن ہمیں ایک بھی نشست نہیں ملی۔‘

شاندانہ گلزار کے مطابق: ’پنجاب میں ہمیں ایک کروڑ 36 لاکھ ووٹ ملے اور ہمیں 55 نشستیں دی گئیں۔ یہ پاکستان کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ ‘

بڑی سکرین پر گرافکس دکھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نو فروری کو صبح تین بجے تک پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں 154 نشستیں حاصل کر چکی تھی جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے 47، 47 نشستیں حاصل کیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں 42 نشستیں جیت رہی تھی جن میں سے کچھ چوری کر لی گئیں اور پارٹی کو 37 نشستیں دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد سے ہم تین سیٹیں جیت رہے تھے اور تینوں چوری کر لی گئیں۔ پنجاب میں ہم 115 نشستیں جیت رہے تھے لیکن 55 دی گئیں۔ بلوچستان میں ہمیں چار مل رہے تھیں لیکن ہمیں ایک نشست ملی۔‘


16 فروری صبح 12 بجکر 40 منٹ

سپریم کورٹ: آٹھ فروری کا الیکشن کالعدم قرار دینے کے درخواست سماعت کے لیے مقرر

سپریم کورٹ نے فوج کے ایک سابق افسر کی آٹھ فروری کو ہونے والے ’عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے‘ کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کر لی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 19 فروری کو درخواست کی سماعت کرے گا۔ بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

ریٹائرڈ بریگیڈیئر علی خان کی دائر کردہ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ پری پول دھاندلی اور نتائج میں تاخیر کے بعد جمہوری اصولوں کو خطرہ لاحق ہے لہذا سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں 30 دن کے اندر نئے انتخابات کا حکم دے۔

پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ متعدد بڑی سیاسی جماعتیں اس الیکشن میں دھاندلی کے الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کر رہی ہیں۔


16 فروری صبح 11 بجکر 45 منٹ

انتخابات میں مبینہ دھاندلی: جماعت اسلامی کا اسلام آباد، جی ڈی اے اور جے یو آئی کا سندھ میں احتجاج

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی حامی جماعتوں نے سندھ میں جامشورو انٹرچینج پر جبکہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے صوبے کے تین مقامات پر احتجاجی دھرنے دیتے ہوئے سندھ اور پنجاب کا بارڈر بند کر دیا ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی بھی آج اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہے۔

نامہ نگار امر گرُڑو کے مطابق سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت میں بننے والے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے زیراہتمام عام انتخابات 2024 کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف آج حیدرآباد کے قریب جامشورو انٹر چینج کے مقام پر ایم نائن موٹروے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

احتجاج کے دوران موٹروے پر دھرنے کے باعث پنجاب سے آنے والی ٹریفک معطل ہے۔ اس احتجاجی دھرنے میں جی ڈی اے میں شامل دیگر جماعتوں بشمول جمیعت علمائے اسلام، سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی)، سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی)، قومی عوامی تحریک، پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے ساتھ ساتھ جی ڈی اے سربراہ پیر پگاڑا اور حرفورس بھی شرکت کر رہے ہیں۔

جی ڈی اے کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے سندھ کے مختلف شہروں سے لوگ گذشتہ رات سے ہی آنا شروع ہو گئے اور احتجاج کے پیش نظر موٹروے پولیس نے کراچی آنے اور جانے والے شہریوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی۔

جی ڈی اے کے دھرنے سے پیر پگاڑا، ڈاکٹر صفدر عباسی، ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی اور ذوالفقارمرزا سمیت دیگر اہم رہنما خطاب کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف سندھ کی قیادت نے بھی جی ڈی اے کے اس احتجاجی دھرنے کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد سمیع سواتی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی جماعت کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف انڈس ہائی وے پر ڈیرا موڑ، سکھر کے پاس قومی شاہ راہ پر نصرت بھٹو یونیورسٹی کے سامنے اور گھوٹکی میں کموں شہید نزد اوباوڑو پر دھرنے دیا گیا ہے، جس کے باعث سندھ اور پنجاب کا بارڈر بند ہوگیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان دھرنوں میں جے یو آئی کے رہنما راشد محمود سومرو، مولانا سعود افضل ہالیجوی اور مولانا محمد صالح انڈھڑ شرکت کر رہے ہیں۔

ادھر جماعت اسلامی کے مطابق آج دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر شام ساڑھے چار بجے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔


16 فروری صبح 11 بجکر 40 منٹ

سندھ ہائی کورٹ: الیکشن پٹیشنز کی سماعت کے لیے ٹربیونلز قائم

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے عام انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف آنے والی الیکشن پٹیشنز کی سماعت کے لیے ٹربیونلز تشکیل دے دیے۔

نامہ نگار امر گرُڑو کے مطابق رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی ڈویژن کے لیے پرنسپل سیٹ ہائی کورٹ میں الیکشن پٹیشن کی سماعت ہو گی اور کراچی ڈویژن میں الیکشن پٹیشنز کی سماعت کے لیے دو بینچ تشکیل دیے گئے ہیں۔

بینچ ون جسٹس محمد کریم خان آغا اور بینچ ٹو جسٹس عدنان اقبال چوہدری پر مشتمل ہو گا۔

سکھر ڈویژن کی الیکشن پٹیشن کی سماعت جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کریں گے۔ حیدر آباد ڈویژن کی الیکشن پٹیشن کی سماعت جسٹس امجد علی سہتو کریں گے۔

لاڑکانہ ڈویژن کی الیکشن پٹیشن کی سماعت جسٹس محمد سلیم جیسر کریں گے۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے صوبے میں الیکشن پٹیشن کی سماعت کے لیے ٹربیونل کی تشکیل کے لیے خط لکھا تھا۔

 الیکشن ٹریبونلز عام انتخابات 2024 میں ہونے والی مبینہ دھاندلی سے متعلق سماعت کریں گے۔


16 فروری صبح 8 بجکر 30 منٹ

بین الاقوامی مبصرین اب بھی پاکستان میں ووٹوں کی گنتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں: امریکہ

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتائج پر پاکستان کے کچھ حصوں میں احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات کے بعد وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا ہے کہ بین الاقوامی مبصرین اب بھی ووٹوں کی گنتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی لیکن جیل میں قید سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 264 میں سے 93 نشستیں حاصل کیں، جو پارلیمنٹ میں کسی بھی جماعت کی نشستوں سے زیادہ ہیں۔

بعدازاں چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتحادی حکومت بنانے پر اتفاق کیا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد سے مختلف آئینی و قانونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

انتخابی نتائج میں تاخیر کے باعث پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں اور اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے انتخابات میں پاکستان میں ڈرانے اور ووٹروں کو دبانے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہم اس (صورت حال کو) بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔‘

انہوں نے ووٹوں کی گنتی کے بارے میں مزید کہا: ’بین الاقوامی مبصرین اب بھی ووٹوں کی گنتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، میں اس عمل کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وائٹ ہاؤس کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف نے اپنے بانی چیئرمین عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد امریکہ کے لیے ایک پیغام دیا تھا۔

بقول بیرسٹر سیف: ’انہوں (عمران خان) نے امریکہ کے حوالے سے خاص طور پر پیغام دیا ہے کہ امریکہ نے تمام الیکشن کو مانیٹر کیا، تمام ایجنسیوں نے مانیٹر کیا لیکن امریکہ کی طرف سے جس قسم کا بیان آیا ہے، اس میں مزید وزن ڈالنا چاہیے، دباؤ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جو الیکشن ہوا ہے اور اس میں جو دھاندلیاں ہوئی ہیں اور بد انتظامی کا جو مظاہرہ ہوا ہے، پاکستان تحریک انصاف کو جس طرح مختلف حربوں کے ذریعے الیکشن کے عمل سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی مذمت اور اس کے حوالے سے آواز اٹھانا امریکہ کا فرض بنتا ہے، جو امریکہ نے اس طرح سے پورا نہیں کیا۔‘

بیرسٹر سیف نے مزید کہا تھا: ’عمران خان کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ امریکہ کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی کے کردار کو مزید صاف کرنے کے لیے، جمہوری بنانے کے لیے، قابل اعتماد بنانے کے لیے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر نظر رکھے، جو بھی لوگ اس میں ملوث ہیں، ان سے کہے، اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے کہ وہ اس کا سدباب کریں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ نے بھی حالیہ دنوں میں ایک سے زائد بار پاکستان کے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے آٹھ فروری کو بھی پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جسے اسلام آباد کی جانب سے مسترد کیا جا چکا ہے۔

 نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان ممالک نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو صحیح مان لیا اس لیے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ بقول نگران وزیراعظم: ’ضرورت پڑی تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اپنے قوانین کے مطابق کریں گے۔‘

انہوں نے امریکی کانگریس کے بعض اراکین کے مبینہ دھاندلی کے الزامات کو ’ذاتی رائے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی حکومت کی رائے نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان