کیا گاڑی میں پڑی گرم بوتل سے پانی پینے سے کینسر ہو سکتا ہے؟
سادہ ترین جواب یہ ہے کہ نہیں!
گاڑی میں پڑی ہوئی گرم پانی کی بوتل سے پانی پی لینے میں کوئی حرج نہیں، اس سے کینسر ہونے کا امکان نہیں ہے۔
کینیڈین کینسر سوسائٹی نے اس بارے میں لکھا کہ ’پلاسٹک والی پانی کی بوتلوں کا پانی جو منجمد یا زیادہ گرم ہوتا ہے، اسے پینے سے کینسر کا خطرہ نہیں بڑھتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بوتلوں میں ڈائی آکسن پیدا ہو سکتا ہے جو انتہائی زہریلے مادہ ہے اور کینسر کا سبب بنتا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں میں ڈائی آکسن پایا جاتا ہو۔‘
ہاں ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ ’ڈسپوزایبل پانی کی بوتلوں کو ایک سے زیادہ بار استعمال کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے، اگر انہیں اچھی طرح سے صاف اور خشک نہ کیا جائے۔ یہ (بیکٹیریا کی وجہ سے) پیٹ وغیرہ کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں لیکن ایسا معاملہ ہر کھانے کے برتن کا ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ڈسپوزایبل پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں کو ایک سے زیادہ بار استعمال کرنے سے کینسر ہو جانے کا امکان ہو۔‘
آسٹریلین کینسر سوسائٹی نے مزید واضح بیان اس بارے میں دیا ہے کہ ’کینسر کے کسی بھی خطرے کے بغیر، پلاسٹک کی بوتلوں سے پانی پینا محفوظ ہے یہاں تک کہ جب بوتل کو گرم کاروں میں چھوڑ دیا گیا ہو، منجمد کیا گیا ہو یا دوبارہ استعمال بھی کیا گیا ہو۔ اس بات سے اختلاف کرنے کے لیے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’پلاسٹک کی بوتلوں سے پانی پینا محفوظ ہے، حالانکہ، کئی برسوں سے، لوگ غلط معلومات والی ای میلز پھیلا رہے ہیں جن میں مختلف طریقوں سے جان ہاپکنز یونیورسٹی یا والٹر ریڈ آرمی میڈیکل سینٹر کا نام لے کر دعویٰ کیا جاتا ہے، جب کہ ان دونوں اداروں نے ایسے کسی بھی بیان میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید کہا گیا: ’جعلی ای میلز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان بوتلوں سے نقصان دہ کیمیکلز خارج ہوسکتے ہیں لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔
’مجموعی طور پر، پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی، پینے کے لیے محفوظ ہے. دھات یا شیشے کی بوتلوں میں بھی پانی اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے۔‘
اس ساری تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ نئی پانی کی بوتل گاڑی میں پڑی پڑی گرم ہو گئی ہو تو بغیر کسی خطرے کے اسے پیا جا سکتا ہے۔
بوتل اگر دوبارہ استعمال کی ہے تو گرمی کی وجہ سے اس میں بیکٹیریا پیدا ہونے کا خطرہ ہو گا، اس لیے دوبارہ پانی بھرنے سے پہلے اس کی صفائی گرم پانی اور واشنگ لیکوڈ سے اچھی طرح کر لیں۔
ہاں ایک چیز یہ تحریر لکھنے کے دوران سامنے آئی کہ پانی کی ایک پلاسٹک بوتل میں تقریباً دو لاکھ 40 ہزار نینو پلاسٹک اور 240 سے 300 کے آس پاس مائیکرو پلاسٹک کے ذرات ہوتے ہیں جو آپ کے اندر جاتے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک کا ذرہ ایک انسانی بال سے 70 فیصد مزید باریک ہو سکتا ہے جب کہ نینو پلاسٹک کا ایک ذرہ کتنا چھوٹا ہوتا ہے؟ ایک مائیکرو میٹر سے بھی کم، یعنی سمجھ لیں اس کا لاکھواں حصہ۔
اب یہ نینو اور مائیکرو پلاسٹک آپ کے گردوں، جگر، خون ہر جگہ گھومے گا۔ خون میں ہے تو پورے جسم تک اس کی رسائی ہے، ماں کے دودھ تک میں سائنس دانوں نے اسے ٹریس کر لیا ہے۔ پلاسٹک کے ان ذروں سے کیا بیماریاں ہو سکتی ہیں، ان پر فی الحال اس وقت سائنس کا بہت کام باقی ہے۔ نینو پلاسٹک والا انکشاف تو ابھی جنوری 2024 میں ہوا ہے، یہ ایسی خبر ہے کہ جس پر بوتل ساز ادارے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ فی الحال یہ ایک نئی تحقیق ہے، جب تک اس کے نقصانات، اگر کوئی ہیں، وہ واضح نہیں ہو جاتے تب تک اس پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے چونکہ علم ہو گیا تو آپ تک پہنچانا ضروری سمجھا۔
اس کا اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تو یہی حل سمجھ میں آتا ہے کہ چھوٹی برائی کا انتخاب کیا جائے۔ ٹونٹی یا سرکاری نل کا پانی کسی علاقے میں ایسا نہیں جو اب کی نسل بے خطر پی سکتی ہو، فلٹر پلانٹ سے لائیں گے تو بھی پلاسٹک بوتل میں ہی آئے گا، سو بہتر ہے کہ وہی صاف ستھرا پانی کسی اچھی کمپنی کا لیں اور سکون سے پیئیں۔
پلاسٹک سے بالکل جان چھڑانی ہے تو پھر مٹی کے گھڑے اور سٹیل کے برتن زندہ باد، ابالیں اور ٹھنڈا کر کے پرانے زمانوں کی طرح استعمال کریں۔
(اس مضمون کی تیاری میں نینو فلوئیڈ پر ریسرچ کرنے والے کیمیکل انجینیئر ابوالحسن علی سے مدد لی گئی ہے، جو بطور متعلم کوئینز یونیورسٹی بیلفاسٹ سے وابستہ ہیں۔)
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔