ڈی آئی خان: سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، دو اہلکار جان سے گئے 

ڈی آئی خان پولیس کنٹرول روم کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈیرہ ٹانک روڈ پر سکیورٹی فورسز کا قافلہ جا رہا تھا، جسے نشانہ بنایا گیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر 2023 کو عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار جائے وقوعہ کا جائزہ لیتے ہوئے (اے پی)

خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں پولیس کے مطابق جمعرات کو تھانہ ہتھالہ کی حدود میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے کے نتیجے میں دو اہلکار جان سے چلے گئے۔

ڈی آئی خان پولیس کنٹرول روم کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیرہ ٹانک روڈ پر سکیورٹی فورسز کا قافلہ جا رہا تھا، جسے نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب تک کی اطلاعات کے مطابق مبینہ خود کش دھماکے میں دو اہلکار جان سے گئے جبکہ کم از کم 15 زخمی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘

کنٹرول روم عہدیدار کے مطابق ڈیرہ ٹانک روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان شدت پسندی کے لحاظ سے شمالی و جنوبی وزیرستان کے بعد خیبرپختونخوا کا تیسرا سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے، جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک اس ضلعے کا محل وقوع ہے۔ شمالی و جنوبی وزیرستان سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں شدت پسندی زیادہ ہے۔

محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق ڈی آئی خان میں 2023 میں مجموعی طور پر 98 شدت پسندی کی کارروائیاں ہوئیں، جس کے دوران سکیورٹی فورسز کے 21 اہلکار جان سے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح شدت پسندی کی سب سے بڑی کارروائی دسمبر 2023 میں درابند کے ایک فوجی کیمپ میں ہوئی تھی، جہاں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں پولیس کے مطابق کم از کم 23 فوجی اہلکار جان سے گئے تھے۔ اس حملے میں شدت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی کیمپ سے ٹکرا دی تھی۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

گذشتہ روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں عسکریت پسندوں نے پورٹ اتھارٹی کالونی پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ ڈیوٹی پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی بروقت جوابی کارروائی کے سبب تمام آٹھ حملہ آور مارے گئے۔

اس سے قبل 16 مارچ کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں دو افسران سمیت پاکستانی فوج کے سات اہلکار جان سے چلے گئے تھے۔

حکومت نے شدت پسندی کے حالیہ واقعات کے بعد ان کے خاتمے کا عزم کیا ہے۔ گذشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کی سرحدوں کو دہشت گردی کے خلاف ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔

اسی طرح وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی گذشتہ روز کہا ہے کہ ملک میں ہونے والے ’دہشت گرد‘ حملوں کے خلاف اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور ’کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو معافی نہیں ملے گی۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان