ابتدائی انسانوں نے 16 لاکھ سال پہلے بولنا شروع کر دیا تھا: نئی تحقیق

برطانوی ماہر آثار قدیمہ سٹیون میتھن کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی انسانوں نے تقریباً 16 لاکھ سال پہلے افریقہ کے مشرقی یا جنوبی خطوں میں بنیادی زبان ایجاد کی تھی۔

29 فروری، 2016 کو مغربی فرانس میں آرٹس میوزیم، لاسکاکس چہارم میں غاروں کے دور کی نقاشی نقل کرنے کا عمل (فوٹو: مہدی فیدووچ/ اے ایف پی)

‌ایک نئی تحقیق میں قبل از تاریخ کے اس ممکنہ وقت کی نشاندہی ہوئی ہے جب انسانوں نے پہلی بار بولنا شروع کیا تھا۔

برطانوی ماہر آثار قدیمہ سٹیون میتھن کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی انسانوں نے تقریباً 16 لاکھ سال پہلے افریقہ کے مشرقی یا جنوبی خطوں میں بنیادی زبان ایجاد کی تھی۔

یونیورسٹی آف ریڈنگ میں ابتدائی تاریخ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر متھن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’انسانوں کی بولنے کی صلاحیت کی نشوونما بلا شبہ کلیدی تھی جس نے بعد میں انسان کے جسمانی اور ثقافتی ارتقا کو ممکن بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کی ابتدائی شکلوں کے ظہور کے وقت کے بارے میں معلومات بہت اہم ہیں۔‘

کچھ عرصے پہلے تک انسانی ارتقا پر کام کرنے والے زیادہ تر ماہرین کا خیال تھا کہ انسانوں نے تقریباً دو لاکھ سال پہلے ہی بولنا شروع کیا تھا۔ پروفیسر میتھن کی رواں ماہ شائع ہونے والی نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی انسانی زبان اس سے کم از کم آٹھ گنا پرانی ہے۔ ان کی تحقیق تمام دستیاب آثار قدیمہ، پیلیو اینتھروپولوجیکل، جینیاتی، اعصابی اور لسانی شواد کے تفصیلی مطالعے پر مبنی ہے۔

یکجا کیے جانے پر تمام شواہد یہ بتاتے ہیں کہ زبان کی ابتدا دو سے 15 لاکھ سال پہلے کے درمیان انسانی ارتقا اور دیگر پیش رفت کے ساتھ ہوئی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کا سائز 20 لاکھ قبل مسیح، خاص طور پر 15 لاکھ قبل مسیح، کے بعد تیزی سے بڑھ گیا تھا۔ حجم میں اضافے سے دماغ کی اندرونی ساخت کی تنظیم نو ہوئی جس میں فرنٹل لاب (دماغ کے سامنے والے حصے) کا ظاہر ہونا خاص طور پر زبان کی ایجاد اور زبان کی فہم سے وابستہ ہے۔

سائنس دانوں کے نزدیک بظاہر بروکا نامی دماغ کا درمیانی حصہ ابتدائی ڈھانچے سے تیار ہوا ہے جو ہاتھ اور بازو کے اشاروں سے بات چیت کرنے کی ابتدائی انسانیت کی صلاحیت سے وابستہ تھے۔

نئی سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کا بروکا حصہ یادداشت میں بہتری سے بھی منسلک تھا جو ایک جملے کی تشکیل کے لیے اہم ہے۔ لیکن ابتدائی زبان کی ابتدا کے لیے دیگر ارتقائی پیش رفت بھی بہت اہم تھیں۔ مثال کے طور پر تقریباً 18 لاکھ سال پہلے انسانی کھوپڑی کی شکل میں تبدیلیوں کے ساتھ بائی پیڈلزم کی ایک زیادہ جدید شکل کے ظہور سے تقریباً یقینی طور پر آواز کی نالی کی شکل اور پوزیشن کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور اس طرح بولنے کو ممکن بنایا گیا۔

آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے ملنے والے دیگر اہم شواہد جو کہ تقریباً 16 لاکھ قبل مسیح کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب انسانوں نے بولنا شروع کیا تھا۔ بہت سے دوسرے جانوروں کے مقابلے انسان خاص طور پر طاقتور نہیں تھے۔ زندہ رہنے اور خوش حال ہونے کے لیے انہیں اس نسبتاً جسمانی کمزوری کی تلافی کرنے کی ضرورت تھی۔

ارتقائی اصطلاح میں زبان یقینی طور پر اس جسمانی طاقت کے متبادل کے طور پر حکمت عملی کا حصہ تھی۔ بڑے جانوروں کا شکار کرنے یا (شکار کے وقت جسمانی طور پر طاقتور حریف جانوروں کو پیچھے ہٹانے) کے لیے ابتدائی انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اجتماعی منصوبہ بندی اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی تھی جس کے لیے زبان کی ترقی بہت اہم ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے لحاظ سے انسانوں کی جانب سے شکار تقریباً 20 لاکھ سال پہلے شروع ہوا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ تقریباً 15 لاکھ سال پہلے اس میں کافی تیزی آ گئی تھی۔ تقریباً 16 لاکھ قبل مسیح میں جدید پتھروں کے آلے کی ٹیکنالوجی کی ابتدا اور بین نسلی ثقافتی تبادلے بھی دیکھے گئے۔ پیچیدہ علم اور ہنر کی نسل در نسل طویل مدتی منتقلی بھی بولنے کے لیے اہم تھی۔

مزید یہ کہ مختلف ماحولیاتی اور آب و ہوا والے علاقوں میں انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے لسانی بات چیت شاید بہت اہم تھی۔ یہ شاید کوئی اتفاق نہیں ہے کہ انسان تقریباً 14 لاکھ سال پہلے یعنی ممکنہ طورپر زبان کی ابتدا کے فوراً بعد دنیا پر اپنی نوآبادیات کو بڑے پیمانے پر تیز کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

زبان نے انسانوں کو مستقبل کی تین اہم چیزیں کرنے کے قابل بنایا جن میں کاموں کا تصور، منصوبہ بندی اور علم کو منتقل کرنا شامل تھا۔

پروفیسر میتھن نے کہا کہ ’اس طرح زبان نے انسانوں کی تاریخ کو ڈرامائی طور پر بدل دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی نئی تحقیق، جس کا خاکہ رواں ماہ شائع ہونے والی ایک نئی کتاب ’دا لینگویج پزل‘ میں پیش کیا گیا ہے، میں بتاتا ہے کہ تقریباً 16 لاکھ سال پہلے انسانوں کے پاس رابطے کی صلاحیت بہت زیادہ محدود تھی جو شاید صرف چند درجن مختلف آوازوں اور بازوؤں کے اشارے سے رابطہ کر سکتے تھے جن کو ظاہر ہے کچھ حد تک ہی فائدہ مند تھے اور ان کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ منصوبہ بندی کے لیے بنیادی گرامر اور انفرادی الفاظ کی ضرورت تھی۔

پروفیسر میتھن کی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ بہت ابتدائی انسانی زبانوں اور جدید زبانوں میں کچھ تسلسل نظر آتا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 16 لاکھ سال پہلے کے ابتدائی لسانی ترقی کے کچھ پہلو آج بھی جدید زبانوں میں زندہ ہیں۔ ان کہتے ہیں کہ ایسے الفاظ، جو اپنی آوازوں یا طوالت کے ذریعے کسی خاص چیزوں کی وضاحت کرتے ہیں، یقینی طور پر ابتدائی انسانوں کے کہے گئے پہلے الفاظ میں بھی شامل تھے۔

درحقیقت مستقبل کی تحقیق ان پہلی زبانوں کی ممکنہ تنظیم اور ساخت کو عارضی طور پر دوبارہ بنانے کے قابل ہو سکتی ہے۔

اگرچہ زبان کی ابتدا تقریباً 16 لاکھ سال پہلے ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ ابتدا لسانی ترقی کے آغاز کی نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ اس کی انتہا کی۔

سینکڑوں ہزاروں سالوں سے زبان بہت آہستہ آہستہ زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی اور بالآخر ڈیڑھ لاکھ سال پہلے جدید انسانوں کے ظہور کے بعد اس میں نفاست حاصل ہوئی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق