عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ فنڈ پاکستان سے نئے معاہدے کے لیے مذاکرات پر تیار ہے جبکہ رواں ماہ آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ میں منظوری کے بعد پاکستان کو سٹیڈ بائی ارینجمنٹ کے بقایہ ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک رسائی مل جائے گی۔
جمعرات کو واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزیک نے پاکستان کی معیشت اور آئی ایم ایف سٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے حوالے سے کیے گئے سوالوں کے جواب دیے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’فنڈ کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان 19 مارچ کو عملے کی سطح پر معاہدہ ہوا اور اب یہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔‘
ان کے مطابق ’بورڈ سے منظوری کے بعد، پاکستان کو تقریباً 1.1 بلین ڈالر تک رسائی حاصل ہو گی، اور اس سے ایس بی اے کے تحت ادائیگی تین ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔‘
جولی کوزیک کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں توقع ہے کہ بورڈ کا اجلاس اپریل کے آخر تک ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف حالیہ مہینوں میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نگران حکومت کی طرف سے مضبوط پروگرام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو استحکام اور بحالی کی طرف لے جانے اور نئی حکومت کی اصلاحات کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے۔‘
جولی کوزیک کے مطابق ’پہلا جائزہ مکمل ہونے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی بہتری میں بہتری آئی ہے۔ ترقی اور اعتماد کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اگلے ہفتوں میں اپنے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ کے حصے کے طور پر جاری کریں گے، جو پاکستان کے لیے ہماری ترقی کی تازہ ترین پیش گوئی ہے۔ لہٰذا میں آپ کو ان دستاویزات اور ان پریس کانفرنسوں کا حوالہ دوں گی۔‘
جولی کوزیک کے مطابق ’حکام نے آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے مالی اور بیرونی استحکام کے چیلنجوں کو حل کرنا اور جامع ترقی کی بنیاد رکھنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس پروگرام کے حوالے سے ہونے والے آئندہ مہینوں میں مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘
آئی ایم ایف کے ساتھ مرکزی پروگرام ناکام ہوا تھا؟
پاکستان نے جون 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ای ایف ایف پروگرام (ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی) سائن کیا تھا۔ جو جون 2023 میں ناکامی پر ختم ہو گیا تھا۔
معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا کے مطابق ’وہ 6.5 ارب ڈالر کا پروگرام تھا لیکن پاکستان کو 3.9 بلین ڈالر ملے تھے لیکن پروگرام کی ناکامی پر بقایا 2.6 ارب ڈالر نہیں ملے تھے۔
’پروگرام ناکام اس لیے ہوا تھا کہ پاکستان شرائط پوری نہیں کر سکا۔ جب وہ پروگرام ناکام ہونے کے بعد ختم ہوا تو اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ سائن کیا تھا جس کی مدت نو ماہ تھی اور اس میں تین ارب ڈالر پاکستان کو ملنے تھے، گزشتہ برس جولائی میں معاہدہ ہوا جو رواں سال اپریل میں مکمل ہونا ہے۔
’پہلی قسط گذشتہ برس جولائی میں ہی مل گئی تھی جو تقریباً 1.2 بلین ڈالر تھی، اس کے بعد 700 ملین ڈالرز الیکشن سے قبل ملا تھا جبکہ آخری قسط نو 1.1 ارب ڈالرز نو منتخب حکومت کو بورڈ کی منظوری کے بعد ملے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹینڈ بائی معاہدہ اور ایکسٹینڈد فسیلیٹی فنڈ میں کیا فرق ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق ’سٹینڈ بائی معاہدہ ایمرجنسی ارینجمنٹ ہوتا ہے اس کے ساتھ کوئی اصلاحات منسلک نہیں ہوتیں، جبکہ ای ایف ایف معاہدہ طویل مدتی ہوتا ہے اور رقم بھی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی شرائط بھی کڑی ہوتی ہیں۔
پاکستان جو نیا معاہدہ کرے گا وہ ایکسٹینڈڈ فیسلیٹی فنڈ ہے۔ اس حوالے سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ بنیادی طور پر سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط کے ہیں جو آئی ایم ایف نے 12 اپریل سے پہلے پاکستان کو جاری کرنا ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض کیسے ملتا ہے؟
اںڈپینڈنٹ اردو کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق آئی ایم ایف کے رکن ممالک جو قرض حاصل کرتے ہیں وہ درحقیقت ان ممالک کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔
ہر رکن ملک آئی ایم ایف کو اپنے حصے کے پیسے دیتا ہے اور اس حصے کے عوض آئی ایم ایف ہر رکن ملک کا ایک کوٹہ بناتا ہے۔ اس کوٹے کے اندر رہ کر آئی ایم ایف سے ضرورت کے تحت قرض حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی رکن ملک اپنے مخصوص کوٹے سے زیادہ قرض حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو یہ قرض مشروط ہوتا ہے اور قرض حاصل کرنے والے ملک کو چند معاشی اصلاحات پر مبنی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔