ایک اور کیس، ایک اور ’سمجھوتہ‘ اور بات رفع دفع ہو گئی۔ حال ہی میں ایک بچے کے ساتھ مدرسے میں استاد نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی اور جب بچے کے والد نے ایف آئی آر کٹوائی تو ایک مذہبی رہنما اس مذہبی استاد کے دفاع کے لیے پہنچے اور آخر میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔
والد کا بیان آ گیا کہ ’رضائے الٰہی کے لیے معاف کر دیا ہے۔‘
اس سے پہلے 2021 میں لاہور کے ایک مدرسے میں جنسی زیادتی کا کیس سامنے آیا جس میں اور کوئی نہیں بلکہ ایک مفتی صاحب ملوث پائے گئے تھے۔
2017 میں پاک پتن میں ایک نو سالہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ پھر 2018 میں لاہور ہی میں ایک مولوی نے ایک کم عمر بچے کو نشانہ بنایا، پھر 2019 میں ایک 13 سالہ معذور بچی کے ساتھ مولوی نے ملتان میں زیادتی کی۔
2023 میں چکوال کے ایک مدرسے میں 15 کم عمر لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ درجنوں واقعات میں سے کچھ ہیں اور اس قسم کے اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں اور واقعات ہوں گے جو کہ کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔
مذہب کو لے کر ہر ملک ہی میں لوگ حساس ہوتے ہیں۔ مغرب میں بھی چرچز میں پادریوں کے ہاتھوں جنسی استحصال اور یہاں تک کہ ویٹیکن میں جنسی زیادتی کو سامنے لانے میں سالوں لگے۔
لیکن پاکستان میں اب تک اس حوالے سے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا۔ 2017 میں امریکی خبر رساں ایجنسی نے ایک رپورٹ میں پاکستان کے مدرسوں میں جاری جنسی زیادتیوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ کی تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جنسی زیادتیاں تو ہو رہی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں مولوی بہت بااثر ہوتے ہیں اور جنسی زیادتی پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اس بارے میں نہ تو بات کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس قسم کے کیسز عدالت تک پہچنتے ہی نہیں ہیں کیوں کہ مدرسے پولیس کو پہلے ہی اپنی جانب کر چکے ہوتے ہیں اور وہ متاثرہ خاندان کی بات ہی نہیں سنتے۔
اور اگر کوئی کیس عدالت میں پہنچ بھی جائے تو عدالتوں میں خاندانوں پر اتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ معاف کر دیتے ہیں۔
ایک نو سالہ بچے کی ماں نے پیچھے نہ ہٹنے کا اعادہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ اس مولوی کو سزا دلوا کر ہی چھوڑے گی جس نے اس کے بچے کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ لیکن آخر میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ماں نے مولوی کو 40 ہزار کے عوض معاف کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بہت سارے کیسز میں خاندان بے عزتی اور شرمندگی کے باعث سامنے آتے ہی نہیں اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
2017 کی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ میں جو کیسز بتائے گئے ہیں ان کی 2007 سے لے کر 2017 تک تعداد 359 بنتی ہے۔
بہت سے کہیں گے کہ یہ تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے اور اتنا واویلا کس بات کا لیکن صرف یہ سوچیں کہ مدرسہ جہاں بچے علم حاصل کرنے جاتے ہیں بشمول مذہبی تعلیم کے، اس جگہ پر ایسا ہو رہا ہے۔
جب جب مدرسوں کے خلاف ایکشن لینے کی بات کی گئی تو مذہبی جماعتوں کا ایکا ہو گیا اور حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
پاکستان میں بدقسمتی سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی تندرستی سے زیادہ مذہبی رہنماؤں کا خوف زیادہ ہے۔ ان کی سماج اور سیاسی پوزیشن اتنی مستحکم ہے کہ ان ہر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں اور اگر کوئی کوشش کرے بھی تو یہ لوگ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس چیز کو ادھر ہی دبا دیتے ہیں۔
دوسری جانب سیاست دان بھی مذہبی جماعتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ ان کو فکر ہوتی ہے اپنے ووٹ بینک کی۔ یعنی ان مدرسوں کا کسی قسم کا احتساب نہ ہوتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔
ہماری یاد داشت کافی کم ہے۔ صابر شاہ کا کیس یاد ہے جو ویڈیو صابر نے سوشل میڈیا پر خود ڈالی تھی کہ کیسے مفتی عزیز الرحمٰن اس کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ایک شور برپا ہو گیا۔
حکومتی عہدیداروں نے مفتی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا کہ وہ مدرسوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ کس طرح جنسی زیادتی پاکستانی مدرسوں میں عام ہے لیکن ہم بطور معاشرہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیوں کہ یہ ہمارے یا ہمارے قریبی لوگوں کے ساتھ نہیں ہو رہا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ کافی تفصیلی ہے اور حیرت ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود اب تک کسی قسم کا قانون یا فریم ورک مرتب نہیں کیا گیا جس کے ذریعے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔