ماہ رمضان ختم ہونے میں چند ہی دن باقی ہیں اور بازاروں میں خریداروں کا رش روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جبکہ مرد و خواتین اور بچے عید کی خریداری میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں عید پر مرد و خواتین زیادہ تر شلوار قمیض پہننا پسند کرتے ہیں اور پاکستان کے مشہور برینڈز کی جانب سے بھی اس لباس کے مختلف ڈیزائن خریداروں کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
شلوار قمیض کو پاکستان کا قومی لباس بھی سمجھا جاتا ہے لیکن شاید شلوار قمیض کو پسند کرنے اور اس کو پہننے والوں میں چند ہی کو اس لباس کی تاریخ کا پتہ ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اس لباس کی تاریخ پر روشنی ڈالیں اور یہ معلوم کر سکیں کہ یہ لباس کیسے تقریباً ہر پاکستانی کے گھر تک پہنچا۔
شلوار قمیض پاکستان اور انڈیا کے لباس کے کلچر کا اہم جز ہے اور اسی لباس کو سادہ اور شائستہ لباس سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں شلوار قمیض کے علاوہ لوگ آپ کو جینز، پینٹ اور شرٹ میں تو دکھائی دیں گے لیکن دور دراز کے علاقوں میں آپ کو سارے لوگ شلوار قمیض میں ہی ملبوس نظر آئیں گے۔
ترکی کے انٹرنیشنل ای جریدہ برائے سوشل سائنسز میں چھپے شلوار قمیض کی تاریخ پر مبنی تحقیق مقالے کے مطابق دریائے سندھ کے آس پاس آباد سندھ تہذیب 1700 تک ایک مضبوط تہذیب تھی۔
اس تہذیب کے تاجروں کا اس وقت کے خلیج فارس کے ساتھ تعلق تھا اور آثار قدیمہ میں مردوں کے اس وقت کے چغے یا شال پہننے اور خواتین کے شارٹ سکرٹس پہننے کے ثبوت موجود ہیں جس کے ساتھ ہیڈ گیئر پہنا جاتا تھا۔
شلوار قمیض کی سلائی سے پہلے کا دور
شلوار قمیض کی تاریخ پر ترکی کے سوشل سائنز جریدے نے باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق سندھ تہذیب کے پوسٹ میڈک (600 قبل مسیح سے 1000 قبل مسیح تک کے دور) سے لے کر ہندوستان میں قائم مایورین سلطنت تک لوگ بغیر سلائی کے کپڑے پہنتے تھے۔
زیریں حصے یعنی شلوار کی جگہ ’انٹاریا‘ یعنی نچلا لباس اور شرٹ یا قمیض کی جگہ پہننے والے کپڑے کو ’اوٹاریا‘ کہتے تھے اور انٹاریا کو باندھنے کے لیے استعمال ہونے والی چیز ’کایابندھ‘ کہلاتا تھا۔
اگر آپ اس لباس کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں تو یہ موجودہ دور میں انڈیا اور پاکستان میں پہنے تمبا سے مماثلت رکھتا لیکن اب تمبا کے ساتھ سلا ہوا کرتا پہنا جاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور عرب میں اسلام
تحقیقی جریدے کے مطابق مشرق وسطیٰ اور خطہ عرب میں جب اسلام پھیل گیا اور اسلام میں لباس کی خاص اہمیت کے باعث شلوار قمیض بھی مسلمانوں میں عام ہونا شروع ہو گیا۔
اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ شلوار قمیض پاکستانی گھروں تک کیسے پہنچا، تو سب سے پہلے شلوار قمیض کے الفاظ پر منظر دوڑاتے ہیں۔
تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ شلوار قمیض کی تاریخ پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں لیکن مقالے میں اس کی تاریخ معلوم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
شلوار کو ترک زبان میں ’سلوار‘ کہا جاتا ہے۔ ترکی، عرب اور فارس میں سلوار ایک کھلا ٹراؤزر، جسے ناڑے کی مدد سے باندھا جاتا ہے، کو کہتے ہے۔
اسی طرح قمیض کا لفط عربی زبان سے نکلا ہے اور اس کا مطلب مختلف لمبائی والی شرٹ ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لباس عرب یا فارس سے آیا ہے۔
مقالے کے مطابق عرب لباس توب یا قمیض بھی اسی قسم کی ایک کھلی شرٹ ہے جو مرد زیادہ تر سلائی کے بعد سر سے ٹخنوں تک پہنتے ہیں اور ان کا یہ لباس یونانی دور سے ہے جو شام حتیٰ کے جنوبی افریقہ میں بھی پہنا جاتا ہے۔
سلجوق ترکوں نے وسطی ایشیا سے اٹھ کر ایران اور ایشیا میں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور گیارہویں صدی تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سلجوق ترکوں کا بھی شلوار قمیض کو مقبول کرنے میں اہم کردار رہا ہے۔
اس کے بعد 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ قائم ہوئی تو خلافت عثمانیہ میں خواتین اور مردوں نے شلوار قمیض پہننا شروع کر دیا جس میں شلوار کو سلوار اور قمیض کو گملیک کہا جاتا تھا اور اس کے اوپر پہنے جیکیٹ کو کیبلیک کہا جاتا تھا۔
انڈیا میں شلوار قمیض
ترکوں کی فتوحات کے سلسلے کے دوران وسطی ایشیا کے ممالک سے شلوار قمیض ترکوں کی جانب سے افغانستان اور ایران کے علاقوں میں بھی متعارف کرایا گیا۔
اس کے بعد اس وقت کے شمالی ہندوستان میں شلوار قمیض کو 11ویں اور 12ویں صدی میں متعارف کرانے والی محمود غزنوی کی حکومت تھی جب یہ زیادہ تر مسلمانوں میں مقبول ہوا۔
مغل دورے حکومت اور شلوار قمیض
تحقیقی مقالے کے مطابق افغانوں اور مغلوں نے جب ہندوستان پر قبضے کا سلسلہ جاری رکھا تو 16 ویں صدی میں شلوار قمیض مغلیہ دور حکومت میں انڈیا میں زیادہ مقبول ہوئی۔
اس کے باوجود کہ اس وقت بغیر سلائی کے انٹاریا اور اوٹاریا پہنا جاتا تھا اور بغیر سلا انٹاریا اور اوٹاریا شاہی لباس ہوا کرتا تھا، سلا ہوا شلوار قمیض عام لوگوں میں مقبول تھا۔
اب سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شلوار قمیض کو برصغیر میں مغلیہ دور میں مقبولیت ملی اور مغلوں نے یہ لباس سلطنت فارس سے لیا تھا۔
شلوار قمیض کے ہندوستان آنے کے بعد انٹاریا پائجاما یا شلوار میں تبدیل ہو گیا جبکہ اوٹاریا قمیض، کرتے، گگرا یا انگرخا میں سے تبدیل ہو گیا لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آج کل کے دور میں ساڑھی انٹاریا اور اوٹاریا کی ہی ایک شکل ہے۔
شلوار قمیض انڈیا میں بطور سکول یونیفارم
سنگاپور کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق انڈیا میں شلوار قمیض مغلیہ سلطنت کے دوران مشہور ہوا اور زیادہ تر خواتین میں مقبول ہوا جبکہ 1980 کے بعد یہ اتنا مقبول ہو گیا کہ بعض سکولوں نے اس کو لڑکیوں کے لیے بطور سکول یونیفارم بھی متعارف کروا دیا۔
یہی لڑکیاں سکول سے یونیورسٹی تک شلوار قمیض کو بطور نونیفارم پہنتی تھیں جبکہ اس کو انڈین پنجاب کا روایتی لباس بھی کہا جاتا ہے۔
سنگاپور کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق دیگر ممالک کے طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد انڈیا سے سنگاپور آنے والی خواتین نے سنگاپور میں شلوار قمیض کو متعارف کروایا۔
تحقیق مقالے کے مطابق شلوار قمیض جدید انڈیا میں تو خاصا مقبول ہے لیکن انڈیا کی مختلف ریاستوں میں آج بھی انٹاریا اور اوٹاریا پہنا جاتا جبکہ مرد آج بھی دھوتی پہنتے ہیں۔
تحقیق مقالے میں لکھا گیا ہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور انڈیا تو الگ ملک بن گئے لیکن آج بھی انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کی تہذیب، لباس اور خوراک میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
شلوار قمیض کی بات کی جائے تو تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان میں انڈیا کی فیشن انڈسٹری اور بالی وڈ میں پہنے لباس کو اپنایا جاتا ہے جبکہ 2012 کے بعد انڈیا میں بھی پاکستانی خواتین کے لباس کو پسند کیا جا رہا ہے۔
شلوار قمیض کے بدلتے سٹائل
شلوار قمیض کے برصغیر میں مشہور ہونے سے یہ تقریباً ہر گھر تک تو پہنچ گیا لیکن اس کے بعد شلوار اور قمیض دونوں کہ ہی مختلف شکلیں بننا شروع ہو چکا ہے۔
شلوار کی قسمیں جو آج بھی معروف ہیں
شلوار: یہ سادہ شلوار کہلاتا ہے جس کے لیے کپڑے کو ٹانگوں کے برابر دو حصوں میں کاٹا جاتا ہے اور پہننے والے کی خواہش پر اس کو کھلا یا تنگ سلائی کیا جاتا ہے۔
یہ سادہ شلوار پاکستان کےشلوار قمیض لباس فیشن میں خاصا مقبول ہے اور ملک بھر میں زیادہ تر آپ کو لوگ یہی کھلا شلوار پہنے نظر آئیں گے۔
پٹیالہ شلوار: پٹیالہ شلوار انڈیا کے پٹیالہ شہر میں متعارف کروائی گئی اور یہ خواتین کی شلوار کا ڈیزائن ہے۔
پٹیالہ کے اس وقت کے بادشاہ نے شاہی لباس متعارف کروایا تھا جس میں پٹیالہ شلوار بھی شامل تھی۔
یہ شلوار کھلی شلواروں کی ایک قسم ہے جس کو بہت زیادہ کھلا بنایا جاتا ہے اور پنڈلیوں تک بہت زیادہ کھلا اور اس کے بعد پاؤں تک تنگ سیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ کھلی سلائی کی وجہ سے اس شلوار پر عام شلوار کے نسبت دوگنا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوڑی دار شلوار: جیسا کے نام سے واضح ہے کہ یہ چوڑیوں کی طرز پر بنی شلوار ہوتی ہے یعنی اوپر کے حصے کو چوڑی کی طرح بنایا جاتا ہے اور کولہے سے لے کر ٹخنوں تک بالکل سیدھا اور تنگ بنایا جاتا ہے۔
سلم پینٹ: جیسا کہ یہ بھی نام سے واضح ہے کہ یہ بالکل سلم بنایا جاتا ہے جس کو کولہے اور ران سے لے کر ٹخنوں تک فٹ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں آج کل بڑے برینڈز نے کرتوں اور قمیض کے ساتھ یہی شلوار متعارف کروا رکھی ہے۔
پلازوز: یہ پاکستانی سٹائل کی شلوار سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں مقبول بھی ہے۔ یہ شلوار کولہوں سے لے کر ٹخنوں تک بالکل کھلی بنائی جاتی ہے۔
قمیض کے مختلف ڈیزائن
اسی طرح قمیض کی بھی مختلف قسمیں متعارف کروائی جا چکی ہیں جن میں سادہ قمیض، کرتا، کالی دار کرتا، انارکلی قمیض اور انگرخا شامل ہیں۔
سادہ قمیض تو ہر کسی نے دیکھی ہو گی جو گھٹنوں تک پورے بازو کے ساتھ بنائی جاتی ہے اور بطور شرٹ پہنی جاتی ہے۔
کرتا: کرتا قمیض کی ہی ایک شکل ہے لیکن اس میں کولہے اور ران کی جگہ پر قمیض کی طرح ڈیزائن نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ سیدھا اور چوکور بنایا جاتا ہے۔
کالی دار کرتا: یہ قمیض کی ایک شکل ہے اور پاکستان میں اس کو فراک بھی کہا جاتا ہے جو خواتین میں خاصا مقبول ہے۔
انارکلی سوٹ: اس قمیض کا نام مشہور رقاصہ انارکلی کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ فراک کی طرح ہی بنایا جاتا ہے جس کی لمبائی ٹخنوں تک ہوتی ہے اور اس کو زیادہ تر چوڑی دار شلوار کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔
انگرخا: انگرخا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے بدن کی حفاظت اور یہ قمیض مغل دور میں پہنے ہوئے لانگ کوٹ سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔
اس کو کھلا بنایا جاتا ہے اور دائیں یا بائیں کندھے کے ساتھ اس کو بٹن یا کسی اور چیز سے باندھا جاتا ہے۔