پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے جنوبی ضلع گوادر کی پولیس کا کہنا ہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے سربندر تھانے کی حدود میں حملہ کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو قتل کر دیا۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) گوادر امام بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان کے ضلع گوادر میں سربندر پولیس سٹیشن کی حدود میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سات افراد جان سے چلے گئے۔‘
پولیس کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساڑھے تین بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر پر حملہ کیا، جہاں آٹھ افراد سو رہے تھے جن میں سے سات افراد جان سے چلے گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔
گوادر پولیس کے مطابق لاشوں اور زخمی کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد سربندر میں حجام کی دکان پرمزدوری کرتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گوادر میں سات افراد کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ ملک دشمنوں کا بزدلانہ فعل ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عزم کا بھی اظہار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے گوادر واقعے میں ہونے والی اموات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے درندے انسان کہلانے کے لائق نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سوگوار خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی گوادر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’گوادر میں بے گناہ مزدوروں کا قتل کھلی دہشت گردی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا پیچھا کریں گے۔ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں نہ ہی کوئی جگہ۔ دہشت گردوں کے خلاف جس قسم کی فورس استعمال کرنا پڑی کریں گے۔‘
بلوچستان میں اس طرح کے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ 28 اپریل کو بھی بلوچستان کے ضلع مکران میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو مزدوروں کو قتل کر دیا تھا۔
مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں سرنکن کے مقام پر پیش آنے والے اس واقعے میں نامعلوم افراد نے ایک گھر میں تعمیراتی کام کرنے والے دو مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا اور فرار ہو گئے تھے۔
اس سے قبل 12 اپریل کو عید الفطر کے تیسرے دن کوئٹہ سے ایران سے ملحقہ سرحدی شہر تفتان جانے والی مسافر بس سے نوشکی کے مقام پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو اتار کر قتل کردیا گیا تھا-
پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع نوشکی کے ایس ایس پی اللہ بخش بلوچ نے بتایا تھا کہ ایک درجن سے زائد نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ نوشکی تفتان کی قومی شاہراہ کو بند کرنے کے بعد گاڑیوں کو روک کر چیکنگ شروع کر دی اور ایک بس میں مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں قریبی پہاڑیوں سے مغویوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملیں۔