افغان طالبان کا میڈیا نیٹ ورک پر پابندی کا اعلان

طالبان حکومت کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے میڈیا وائلیشن کمیشن نے ماہرین، تجزیہ کاروں اور صحافیوں سے کہا کہ وہ افغانستان انٹرنیشنل نامی میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ تعاون سے گریز کریں اور عوام سے کہا کہ وہ ان سے رابطہ نہ کریں۔

افغانستان انٹرنیشنل برطانیہ اور افغانستان میں رجسٹرڈ ہے اور لندن اور واشنگٹن کے سٹوڈیوز سے نشریات کرتا ہے (سکرین گریب/ سہراب سیرت ایکس اکاؤنٹ)

افغان طالبان کی حکومت نے افغانستان انٹرنیشنل نامی میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ تعاون اور رابطے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے میڈیا وائلیشن کمیشن نے ماہرین، تجزیہ کاروں اور صحافیوں سے کہا کہ وہ اس چینل کے ساتھ تعاون سے گریز اور عوام سے کہا کہ وہ ان سے رابطہ نہ کریں۔

اس چینل نے ابھی تک اس اعلان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم ٹی وی اور ریڈیو چینل کے علاوہ ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹ چلانے والے اس ادارے کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ یہ 24 گھنٹے چلنے والا نیوز نیٹ ورک معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے پروگرام بناتا ہے۔

مزید کہا گیا کہ ’ادارے کا مقصد درحقیقت پورے ملک کا آئینہ اور دنیا کے لیے ایک کھڑکی اور افغانستان کے لیے دنیا کی کھڑکی بننا تھا اور دنیا میں موجود 75 لاکھ افغان تارکین وطن کو وطن کے ساتھ باندھ کر سماجی رشتہ داری میں مدد دینا تھا۔‘

افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق وہ اپنے پیشہ ورانہ کام میں درستگی اور بھروسے کے اعلیٰ ترین معیارات کے ساتھ آزاد، غیر جانبدارانہ اور ایماندار ہونے کے لیے پرعزم ہے۔

افغانستان انٹرنیشنل برطانیہ اور افغانستان میں رجسٹرڈ ہے اور لندن اور واشنگٹن کے سٹوڈیوز سے نشریات کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کسی حکومت یا تنظیم سے وابستہ نہیں ہے اور اسے نجی شعبے کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے اور یہ غیر جانبدارانہ، بامقصد اور متوازن کام کے لیے پرعزم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیشن کے بیان میں افغانستان انٹرنیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں اس میڈیا سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ انہوں نے شہریوں اور قانونی اداروں کی رازداری کی خلاف ورزی کی اور خبروں کی درستگی کو مدنظر نہیں رکھا۔

اس کمیشن نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ میڈیا ان کے مخالفین کو ان کے نظام کے خلاف نشریات میں بولنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

کمیشن نے تجزیہ کاروں، ماہرین اور صحافیوں سے کہا کہ وہ افغانستان انٹرنیشنل کے ساتھ بات چیت اور تعاون میں حصہ لینے سے گریز کریں۔

طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے انہوں نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور معلومات تک رسائی نہ ہونے اور صحافیوں کی گرفتاری اور ہراساں کرنے جیسی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔

اس عرصے کے دوران ہزاروں صحافی افغانستان سے چلے گئے اور میڈیا کے سینکڑوں ادارے بند ہو گئے، لیکن طالبان خود کو میڈیا کی آزادی کے لیے پرعزم سمجھتے ہیں جسے وہ ’اسلامی فریم ورک‘ کہتے ہیں۔

اسی دوران افغانستان جرنلسٹ سینٹر نے کہا کہ ہرات میں پیس ٹی وی کے چیف ایڈیٹر رامین امیری کو 48 دن تک گرفتار اور قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

مرکز نے ایک بیان میں کہا کہ امیری کو طالبان کی انٹیلی جنس نے گرفتار کیا تھا اور اب انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل