اقوام متحدہ کی فوج فلسطین میں امن قائم کرے: عرب لیگ

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دیگر عرب رہنماؤں سمیت اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جمعرات کو بحرین پہنچے ہیں جہاں غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔

بحرین میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ بندی کی کوششوں کی حمایت کرے اور فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری جارحیت کو رکوائیں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دیگر عرب رہنماؤں سمیت اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جمعرات کو بحرین پہنچے ہیں جہاں غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق اس سربراہی اجلاس سے شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے افتتاحی کلمات میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے خطاب میں غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور عرب دنیا کے مسائل کے لیے سعودی عرب کی حمایت کا اعادہ کیا۔

22 رکنی بلاک کی جانب سے جاری کردہ ’منامہ اعلامیہ‘ میں دو ریاستی حل پر عمل درآمد تک ’مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تحفظ اور امن دستوں‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے منامہ میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے آغاز پر مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔

شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے فلسطینی ریاست کو مکمل طور پر تسلیم کرنے اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت قبول کرنے کے لیے اپنے ملک کی حمایت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’فلسطینیوں کو جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے لیے ایک متحدہ بین الاقوامی موقف کی ضرورت ہے۔‘

نومبر میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں غیر معمولی سربراہی اجلاس کے بعد عرب رہنما پہلی بار جمع ہوئے ہیں۔ اس جلاس میں اسلامی تعاون تنظیم کے رہنما بھی شریک ہوئے تھے۔

اس اجلاس میں رہنماؤں نے غزہ میں اسرائیلی افواج کے ’وحشیانہ‘ اقدامات کی مذمت کی لیکن اس کے خلاف تادیبی اقتصادی اور سیاسی اقدامات کی منظوری دینے سے گریز کیا تھا۔

کویتی تجزیہ کار ظفر العجمی کا کہنا ہے کہ اس بار صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ عرب ممالک کی جانب سے طویل عرصے سے جارری دو ریاستی حل کی عالمی سطح پر بھی حمایت کی جا رہی ہے۔

عجمی نے کہا کہ مغربی رائے عامہ ’فلسطینیوں کی حمایت اور 70 سال قبل اسرائیل کے قیام کے بعد سے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو ختم کرنے کی طرف‘ زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے سمیت اپنے جنگی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب وہ لڑائی میں پھنس گیا ہے جو سات ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔

حالیہ تنازع سات اکتوبر 2023 کو شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیلی اعدادوشمار کے مطابق 1170 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے اور تقریبا 250 کو قیدی بنا لیا گیا تھا جن میں سے 128 کے بارے میں اسرائیل کا اندازہ ہے کہ وہ غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 36 کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت کے دوران 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری جان سے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت

جنوبی افریقہ نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر غزہ میں ’نسل کشی‘ میں اضافے کا الزام عائد کرتے ہوئے ججوں پر زور دیا ہے کہ وہ رفح پر اسرائیلی حملے کو روکنے کا حکم دیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا کی جانب سے اسرائیل کے خلاف متعدد الزامات کی سماعت کی، جن میں اجتماعی قبریں، تشدد اور جان بوجھ کر انسانی امداد روکنا شامل ہے۔

اسرائیل جمعے کو اس کا جواب دے گا۔ اس سے قبل اس نے بین الاقوامی قانون کے بارے میں اپنی ’غیر متزلزل‘ وابستگی پر زور دیا تھا اور جنوبی افریقہ کی جانب سے پیش کردہ مقدمے کو ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ اور قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلیٰ وکیل ووسیموزی مدونسیلا نے کہا کہ ’جب ہم آخری بار اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے تو جنوبی افریقہ کو امید تھی کہ وہ فلسطین اور اس کے عوام کے تحفظ کے لیے نسل کشی کے اس عمل کو روک دے گا۔

’اس کی بجائے، اسرائیل کی نسل کشی تیزی سے جاری ہے اور صرف ایک نئے اور خوفناک مرحلے پر پہنچ گئی ہے۔‘

جنوبی افریقہ آئی سی جے کے مرکز دی ہیگ کے پیس پیلس میں دو روزہ سماعت کے آغاز پر ججوں سے مطالبہ کیا کہ وہ پورے غزہ میں جنگ بندی کا حکم دیں۔

’لہجے‘ کی تبدیلی

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بدھ کو کہا تھا کہ جنوبی غزہ کے شہر رفح سے تقریباً پانچ لاکھ افراد کو نکال لیا گیا ہے، جہاں وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعتراضات کے باوجود حماس کے پیچھے جانے پر اصرار کر رہے ہیں۔

انہوں نے ان دعوؤں کو بھی مسترد کیا کہ وہاں اسرائیلی کارروائیوں سے ’انسانی تباہی‘ جنم لے گی، حالانکہ بین الاقوامی برادری رفح حملے کے سخت مخالف ہے۔

عجمی نے کہا کہ اس پس منظر میں اور قطر کی جانب سے فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت کو تعطل کے قریب قرار دیے جانے کے بعد ’عرب ممالک کا لہجہ بدل گیا ہے‘، جس سے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ جمعرات کو ہونے والے سربراہی اجلاس کے حتمی اعلامیے میں ’پابندیاں لگانے والے‘ اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

یہ پیغام خاص طور پر بحرین میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے ملے گا، جو ان دو خلیجی ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے ابراہم معاہدے کے تحت 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے۔

غزہ کی صورت حال کے علاوہ عرب رہنما سوڈان، لیبیا، یمن اور شام کے تنازعات پر بھی بات چیت کریں گے جن میں صدر بشار الاسد بھی شرکت کریں گے۔ شام گذشتہ سال عرب لیگ میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔

بحرین کے تجزیہ کار اور صحافی محمد المہدی نے کہا کہ بحیرہ احمر کی بحری جہازوں پر یمن کے حوثیوں کے حملے بھی ایجنڈے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن کے بنائے گئے سمندری اتحاد میں بحرین بھی شامل ہے۔

محمد المہدی نے کہا کہ ’یہ اہم سمندری راستے نہ صرف خطے کے ممالک کے لیے بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی اہم ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا