ویب سیریز: ہر فنکار کے لیے کمائی کا بڑا ذریعہ

اس وقت انڈیا میں لگ بھگ سات ایسے مستند اور قابل اعتبار او ٹی ٹی پلیٹ فارمز ہیں جو ویب سیریز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے اداکاروں کو ہی نہیں کہانی کار اور ہدایت کاروں کو بھی مواقع دیے ہیں۔

بہت سی انڈین اداکارائیں ایسی ہیں جو فلموں کے بعد اب ویب سیریز میں بھی اپنی اداکاری کے جلوے دکھا رہی ہیں (فائل فوٹوز: اے ایف پی)

­بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے جب آپ انڈین ویب سیریز کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا فنکار ضرور نظر آ جاتا ہے، جسے ہر کوئی بھلا چکا تھا اور وہ بے چارہ یا بے چاری گھر میں بیٹھے تھے یا کبھی کبھار کسی ٹی وی شو میں آکر سب کو یاد دلاتے کہ وہ بھی کسی زمانے میں مشہور تھے۔

ان میں روینہ ٹنڈن، سشمیتا سین، مادھوری ڈکشٹ، لارا دتہ، سونالی بیندرے، پوجا بھٹ اور نیلم جیسی مشہور اداکارائیں بھی شامل ہیں جبکہ مرد فنکاروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

ماضی کی اداکارائیں وہ ہیں جن کے قیامت خیز حسن و جمال کو دیکھ کر کئی کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتیں لیکن نئی نئی اور نوخیز کم عمر اداکاراؤں کی آمد نے انہیں پس پردہ کر دیا تھا۔

اب ان ویب سیریز کے باعث ماضی کے یہ ستارے دھیرے دھیرے پھر سے روشن ہو رہے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ان دنوں موضوع بحث بننے والی سنجے لیلا بھنسالی کی ’ہیرا منڈی‘ میں منیشا کوئرالا، سوناکشی سنہا اور ادتیہ رائے حیدری ہی نہیں فردین خان اور شیکھر سمن جیسے اداکاروں کو بھی موقع ملا، جو کبھی ہر ایک کی آنکھ کا تارہ تھے۔

پھر ویب سیریز کی مقبولیت اور شہرت بلکہ بھرپور کمائی کا ہی اثر ہے کہ سنجے لیلا بھنسالی جیسا ہدایت کار بھی اس کے سحر میں ایسا مبتلا ہوا کہ ’ہیرا منڈی‘ بنانے پر مجبور ہوگیا۔

ویب سیریز کا جادوئی کمال

بالی وڈ میں ویب سیریز کا بخار دیکھا جائے تو 2018 میں اس وقت چڑھا جب سیف علی خان اور نوازالدین صدیقی کی ویب سیریز ’سیکریڈ گیمز‘ پیش کی گئی۔ ناول پر مبنی اس سیریز نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ سینسر کی قید سے آزاد مکالمات اور مناظر کی وجہ سے اسے پذیرائی ملی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویب سیریز میں سیف علی خان اور نواز الدین صدیقی ہی نہیں کئی اور ایسے اداکار بھی شامل تھے، جو اب فلموں میں نظر نہیں آتے۔ ان میں رادھیکا اپٹے اور کالکی کوچین نمایاں ہیں۔

سیف علی خان اور نواز الدین صدیقی کی اس ویب سیریز کی شاندار کامیابی کے بعد دیگر ہدایت کاروں اور فلم سازوں نے بھی ویب سیریز کو منافع بخش کاروبار تصور کیا۔

ایسے میں مختلف ’اوور دی ٹاپ‘ یعنی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے ان کی یہ مشکل آسان کی کہ وہ کوئی بھی ویب سیریز بنائیں تو خریدار پہلے سے ہی چیک لے کر کھڑے ہوتے۔

اب ایسے میں جب خریدار بھی ہاتھوں ہاتھ خرید رہے ہوں تو پھر کیا تھا ویب سیریز کی ایک قطار لگ گئی، ان میں مرزا پور، دہلی کرائمز، فیملی مین، ممبئی بیگمز یا کریمنل جسٹس نمایاں ہیں۔

ویب سیریز کا یہ کاروبار جو چھ سال پہلے شروع ہوا اس وقت ایک بڑی انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے۔ اب بیشتر فلم سازوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ  ویب سیریز بنائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں سینسر بورڈ کی جھنجھٹ سے بھی آزادی مل گئی ہے۔

فلموں میں تو ان پر ہر وقت سینسر کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ مختلف او ٹی ٹی خود ان ویب سیریز میں سرمایہ کاری کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی نہیں شاہ رخ خان، کرن جوہر اور انوشکا شرما بھی ویب سیریز کے لیے خطیر سرمایہ استعمال کر رہی ہیں۔

ماضی کے اداکاروں کے لیے بہترین پلیٹ فارم

اب کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بوبی دیول جنہیں سبھی فراموش کرچکے تھے۔ ویب سیریز ’آشرم‘ کی کامیابی کے بعد ایک بار ایسے نمایاں ہوئے کہ انہیں گذشتہ سال کی ایکشن سے بھری کامیاب فلم ’اینیمل‘ میں شامل کیا گیا۔ یہ صرف بوبی دیول کی اکلوتی مثال نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب وہ اداکار جن پر بڑھاپے کے آثار ہلکے پھلکے انداز میں ظاہر ہونے لگے تو فلمی دنیا ان سے کترانے لگی تھی، ان کے لیے یہ ویب سیریز فائدے مند ثابت ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2022 میں  مادھوری ڈکشٹ نے ویب سیریز ’دی فیم گیم‘ میں جھلک دکھائی تو اس تخلیق کو خاصی شہرت ملی۔ اسی طرح سابق حسینہ عالم سشمیتا سین کی ویب سیریز ’آریا‘ کے اب تک جو سیزن آچکے ہیں، انہوں نے اداکارہ کو پھر سے خبروں میں شامل کر دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سشمیتا سین کو اتنی پذیرائی فلموں میں نہیں ملی ہوگی جتنی اس ویب سیریز میں کام کرکے ملی۔ ان کی اسی ویب سیریز میں فلم ’ماچس‘ میں کام کرنے والے چندرچور سنگھ نے بھی اداکاری دکھائی۔

کچھ ایسی ہی صورت حال روینہ ٹنڈن کی بھی ہے جو اب تک دو ویب سیریز ’آرنیاک‘ اور ’کرما کالنگ‘ میں اداکاری کر چکی ہیں اور دونوں ہی تخلیقات کو سراہا بھی گیا اوراس وقت کئی فلم ساز انہیں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان ویب سیریز کے اگلے سیزن میں مصروفیات کی بنا پر تاریخیں دینے سے قاصر ہیں۔

علی فضل جن کا فلمی سفر اس قدر خوشگوار نہیں رہا لیکن ’مرزا پور‘ کے دو سیزن نے انہیں مقبولیت اور شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا ہے۔

 خیر کچھ تو ایسے بھی اداکار ہیں جنہیں ویب سیریز کی شہرت خود اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ان میں کام کریں جیسے اجے دیوگن نے ’رادھا دی ایج آف ڈارکنیس‘ میں اپنی صلاحیتوں کا امتحان لیا۔ یہ وہی ویب سیریز ہے جس میں ایشا دیول نے بھی اداکاری کے جلوے دکھائے۔ شاہد کپور نے بھی ’فرضی‘ میں کام کیا۔ ہما قریشی نے بھی ویب سیریز ’مہارانی‘ میں جھلک دکھائی۔

ادھر اننیا پانڈے اور ورون دھون کی بھی زیر تکمیل ویب سیریز ’کال می بائی‘ ہے۔ پھر یہی نہیں شہرت یافتہ اداکار کئی انٹرویوز میں اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر ویب سیریز میں کام کرنے کا موقع ملا تو وہ ضرور اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

ویب سیریز کے مہنگے ترین اداکار

 اس وقت انڈیا میں لگ بھگ سات ایسے مستند اور قابل اعتبار او ٹی ٹی پلیٹ فارمز ہیں جو ویب سیریز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے اداکاروں کو ہی نہیں کہانی کار اور ہدایت کاروں کو بھی مواقع دیے ہیں۔

اداکاروں کے لیے اطمینان کی بات تو یہ ہے کہ انہیں ان کی پسند کا معاوضہ بھی مل رہا ہے۔ انڈین صحافی پریا درشنی پٹوا کی ایک رپورٹ کے مطابق سیف علی خان نے ’ سیکریڈ گیمز‘ کے پہلے سیزن میں کام کرنے کے لیے 15 کروڑ روپے وصول کیے تھے جبکہ کسی فلم میں کام کرنے کے لیے چھوٹے نواب 10 لاکھ روپے تک حاصل کرتے ہیں۔

منوج باجپائی ’دی فیملی مین‘ میں مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک سیزن میں کام کرنے کے لیے 10 کروڑ روپے حاصل کیے۔ کچھ ایسی ہی رقم نواز الدین صدیقی نے ’سیکریڈ گیمز‘ کے لیے وصول کی تھی۔ پنکج ترپاتھی ’مرزا پور‘ کے لیے 12 کروڑ روپے حاصل کر چکے ہیں اور اتنی ہی رقم اسی سیریز کے لیے علی فضل کو بھی ملی۔

فلم پنڈتوں کا خیال ہے کہ جس بڑی تعداد میں ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں، وہ وقت آچکا ہے کہ سینیما گھروں کی روایتی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ انڈین فلمیں جنہیں پہلے ہی جنوبی انڈیا کی فلموں نے اپنی کہانی، ہدایت کاری، ایکشن، سرمایہ کاری، موسیقی اور اداکاری سے خطرے سے دوچار کر دیا ہے، وہ اب اپنے ہی ہوم گراؤنڈ پر ویب سیریز کے سامنے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ