صفائی کے نظام کے لیے فیس لینے میں حرج نہیں: وزیر بلدیات پنجاب

پنجاب حکومت نے لاہور سمیت صوبے بھر میں شہریوں پر صفائی کی فیس لاگو کرنے کی تجویز صوبائی کابینہ کو ارسال کی ہے، اگرچہ اس کی منظوری نہیں ہوئی تاہم شہریوں نے اس پر ملا جلا ردعمل دیا ہے۔

پانچ جون 2023 کی اس تصویر میں  لاہور کے مضافات میں ایک ڈمپنگ سائٹ پر پھینکے گئے کچرے سے خواتین اشیا چن رہی ہیں (اے ایف پی)

پنجاب حکومت نے لاہور سمیت صوبے بھر میں شہریوں پر صفائی کی فیس لاگو کرنے کی تجویز صوبائی کابینہ کو ارسال کردی ہے۔ اگرچہ اس کی منظوری نہیں ہوئی تاہم شہریوں نے اس پر ملا جلا ردعمل دیا ہے۔

صوبائی وزیر بلدیات ذیشان رفیق اسے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی مہم ’صاف ستھرا پنجاب‘ کا دوسرا مرحلہ قرار دیتے ہیں، جس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹیکس نہیں بلکہ صفائی فیس ہے، جو لوگ ویسے بھی گھر سے کچرا اٹھانے کے لیے آنے والوں کو دیتے ہیں۔‘

ذیشان رفیق کے مطابق حکومت جو فیس لے گی اس کی مالیت بھی اتنی ہی کم ہو گی۔ جیسے پانچ مرلے کے گھر کے لیے تین سو روپے ماہانہ اور دس مرلے اور اس سے بڑے گھروں سے پانچ سو روپے فیس لی جائے گی۔

انہوں نے بتایا: ’یہ ہماری تجویز ہے جو ہم نے کابینہ میں سمری کی شکل میں بھیجی ہے۔ جب صوبائی کابینہ اسے منظور کرے گی تب اس پر کام شروع ہوگا اور اسے آئندہ مالی سال سے لاگو کیا جائے گا۔‘

وزیر بلدیات کا کہنا تھا: ’ہم لوگوں کو صفائی اور سینیٹیشن کا ایک سسٹم دینے جا رہے ہیں اور اگر وہ سسٹم خود کفیل (self-sustainable) نہیں ہوگا تو وہ زیادہ عرصے نہیں چل سکے گا۔‘

بقول ذیشان رفیق: ’ہم نے پورے پنجاب کے اندر ایک سسٹم بنانا ہے اور یہ ایک انقلابی قدم ہوگا کیونکہ ہمارے دیہات میں تو کوئی سسٹم ہی موجود نہیں ہوتا۔ اس ماڈل کے ذریعے ہر گھر سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا جائے گا۔

’گلیوں کے اندر صفائی ہوگی۔ نالیوں کی صفائی بھی اس میں شامل ہوگی اور جب یہ سارے کام ہوں گے تو صفائی نظر بھی آئے گی اور اسی نئے سسٹم کو خود کفیل بنانے کے لیے اگر ہم تھوڑی سی فیس لے لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ یہ نیا سسٹم وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے چلائی گئی ’صاف ستھرا پنجاب‘ مہم کا دوسرا مرحلہ ہے۔ اس مہم کے پہلے مرحلے میں پہلے سے موجود کچرے کے ڈھیروں کو اٹھانا تھا۔

’اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے پاس پورے پنجاب سے روزانہ ساڑھے 57 ہزار ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے اور اگر ہم اپنی پوری مشینری اور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی، میونسپل کمیٹی کرپوریشن میں موجود مشینری کو بروئے کار بھی لائیں تب بھی ہماری کوڑا اٹھانے کی سکت 18 ہزار ٹن ہے جس کا مطلب ہے کہ 39 ہزار ٹن کوڑا ہر روز سسٹم میں جمع ہوتا جا رہا ہے۔‘

صوبائی وزیر بلدیات کے مطابق: ’اب پہلے تو ہم نے ساڑھے 57 ہزار ٹن کوڑے کو اٹھوانے کا انتظام کرنا ہے اور اس کام کے لیے خرچہ بھی ہوگا۔ اگر حکومت ہر سال اس کام کے لیے 200 ارب روپے بھی دے تو یہ سب کتنی دیر چلے گا۔ اس لیے اس کو تھوڑا سا خود کفیل بنانے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے ایک بار پھر دہرایا: ’ہم کوئی بہت بڑا ٹیکس یا فیس نہیں لگا رہے بلکہ تھوڑے سے پیسے ہوں گے اور وہ بھی ابھی وزیراعلیٰ کی تجویز ہے اور اس کی منظوری کابینہ کی طرف سے آںی ابھی باقی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسی سروسز کے لیے لوگ فیس ادا کرتے ہیں، لہذا عوام اور میڈیا کو اس پر اعتراض کی بجائے تعاون کرنا چاہیے کیونکہ اگر ٹیکس کے بدلے حکومت سروس مہیا نہ کرے تب اعتراض بنتا ہے لیکن اگر ہم معمولی سی فیس لیتے ہیں اور اس کے بدلے میں سہولت مہیا کریں تو اس پر اعتراض نہیں بلکہ حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔

ذیشان رفیق نے بتایا: ’ہم سروسز پہلے مہیا کریں گے اور فیس بعد میں لیں گے۔ ہم ایک سسٹم بنا کر چلیں گے۔ اس وقت ہمارا پری کوالیفیکیشن فیز چل رہا ہے اور جون کے مہنے میں ہم ٹینڈرنگ فیز میں چلے جائیں گے، جس میں ٹینڈر کھلیں گے اور جن کانٹریکٹرز کو ٹینڈر ملے گا انہیں کچھ وقت دیا جائے گا تاکہ وہ لوگ بھرتی کر سکیں۔ انہیں موبلائزیشن کا وقت دیا جائے گا، جس کے بعد اس سسٹم کو شروع کیا جائے گا۔‘

ورک فورس بڑھانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’ہم اسے آؤٹ سورس کریں گے۔ ہر ڈھائی سو گھروں کے لیے ہم ایک سینیٹری ورکر دیں گے اور جس بھی کمپنی کو ہم آؤٹ سورس کریں گے، یہ ورکرز ان کے ملازم ہوں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ ہم اس کی اے آئی سسٹم کے تحت مانیٹرنگ کریں گے۔ ان کے آلات کی ریکی کروائیں گے اور اس کے بعد ہر روز اٹھائے جانے والے کوڑے کا وزن بھی کریں گے اور اندازہ لگائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک ڈیش بورڈ بھی ہوگا جس پر شکایات درج کروانے کا پورا سسٹم ہوگا اور جب ان پر کوئی شکایت آئے گی تو اسے دنوں نہیں بلکہ  چند گھنٹوں میں دور کیا جائے گا۔‘

پنجاب حکومت نے 10 ڈویژنز میں پودے لگانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، تاکہ کوڑے سے بننے والی کھاد کو استعمال میں لایا جاسکے۔

وزیر بلدیات کے مطابق: ’75 سے 80 فیصد کوڑا دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ 45 سے 50 فیصد کوڑے کی تو کھاد بنتی ہے، 30 فیصد ری سائیکل ہو سکتا ہے، صرف 20 سے 25 فیصد کوڑا ایسا ہوتا ہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا اور آُپ اسے ڈمپ کرتے ہیں، اس کے لیے بھی ہم پانچ لینڈ فل سائٹس بنانے جا رہے ہیں جو ماحول دوست ہوں گی اور کوڑا نہ پانی کو آلودہ کرے گا نہ ماحول کو۔‘

ذیشان رفیق کے مطابق صرف پنجاب میں 23 لینڈ فل سائٹس چاہییں لیکن حکومت اس وقت پانچ سے اس کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔

’ہمارا منصوبہ یہی ہے کہ کوڑے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے لیکن یقیناً اس سارے کام میں کچھ وقت درکار ہوگا۔‘

گڑھی شاہو کی رہائشی عائشہ امجد صفائی کی مد میں فیس لینے کے فیصلے کو درست قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمیں اتنی کم فیس دے کر لاہور کی گلیوں خاص طور پر چھوٹے علاقوں جیسے گڑھی شاہو یا اندرون لاہور کی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر نہ دکھائی دیں تو یہ سودا برا نہیں ہے۔‘

اسی طرح شاد باغ کی رہائشی رضیہ شاہد کہتی ہیں کہ حکومت کو فیس لے کر عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

’باقی چیزوں کی طرح ہم فیس دیتے رہیں گے لیکن کچھ عرصے بعد صفائی ستھرائی اور کوڑے کے ڈھیروں کا وہی حال ہونا ہے، جو اب ہے۔ واسا بھی تو سیوریج کی مد میں پانی کے بل میں فیس لے رہا ہے لیکن اس کے باوجود کیا کہیں گٹر کا پانی نہیں بہہ رہے؟

رمیز سندھو جوہر ٹاؤن میں رہتے ہیں اور ان کے خیال میں پنجاب حکومت ’صفائی فیس‘ نہیں بلکہ ’صفائی ٹیکس‘ لینے جا رہی ہے۔

 بقول رمیز: ’اس سے  پہلے بھی نواز شریف دور میں ایسی مہم شروع ہوئی تھی اور ایڈ ہاک پر ملازمین بھرتی کیے گئے تھے، جو لوگوں کو سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی مانگتے تھے۔

’میرے خیال سے یہ بہت ہی برا فیصلہ ہے کہ آپ عوام سے صفائی کے نام پر ٹیکس وصول کریں اور ان پالیسیوں کے بارے میں بتائیں جو سِرے سے موجود ہی نہ ہوں۔ ویسے بھی عوام اپنی مدد آپ کے تحت کوڑا اٹھانے والوں کو پیسے دے دیتی ہے، لیکن حکومت اس کا بوجھ عوام پر ڈال کر ظلم کرے گی۔۔۔حکومت ریلیف دے، نہ کہ مزید بوجھ ڈال کر خود پر تنقید کا موقع فراہم کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات