سعودی عرب میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم پیش رفت جاری ہے اور ملک اس میدان میں اپنا لوہا منوانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہا ہے۔
نیشنل سٹریٹجی فار ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، جسے 2020 میں شروع کیا گیا، ان کوششوں کا اہم حصہ ہے، جن کا مقصد 2030 تک 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانا اور مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا ماہرین کی 20 ہزار لوگوں پر افرادی قوت تیار کرنا ہے۔
یہ اقدامات وژن 2030 کے تحت سماجی اصلاحات اور معاشی تنوع کے وسیع اہداف سے جڑے ہوئے ہیں، جن کا مقصد مل کر سعودی عرب کو ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں علاقائی لیڈر بنانا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے انسانی ترقی میں اہم پیشرفت ظاہر ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر کاروباری شعبے نے ان کاموں جنہیں انجام دینے کے لیے لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی، کو خود کار بنا کر پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو فروغ دینے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے۔
موجودہ دور، جسے اکثر دوسرا مشینی دور کہا جاتا ہے، مشین انٹیلی جنس کی متعدد مثالوں اور دنیا کے بارے میں ہماری تفہیم کو بڑھانے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے والے اربوں باہم مربوط نظاموں کے انضمام سے ممتاز ہے۔
مصنوعی ذہانت اور جدید خطوط پر تجزیہ زیادہ درست پیشگوئیوں، بہتر فیصلہ سازی اور نئی کاروباری حکمت عملی کے فروغ کو ممکن بناتے ہیں۔
سعودی عرب میں، یہ ٹیکنالوجیز ان صنعتوں کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں اور انسان اور مشین کے مل کر کام کرنے کے عمل کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب میں ممکنہ معاشی اثرات نمایاں ہیں۔ پروفیشنل سروسز فرم پی ڈبلیو سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2030 تک مشرق وسطیٰ میں مصنوعی ذہانت کے متوقع معاشی اثرات 320 ارب ڈالر ہیں، جن میں سے 135.2 ارب ڈالر سعودی عرب سے جڑے ہیں۔
مزید برآں، عالمی منیجمنٹ کنسلٹنگ فرم میک کنزی رائے میں سعودی عرب میں 41 فیصد کام کی سرگرمیاں خودکار ہو سکتی ہیں۔ اس سے بڑے مواقع اور زبردست چیلنجز دونوں سامنے آئیں گے۔
مصنوعی ذہانت کی تیزی سے ترقی، خاص طور پر جنریٹیو اے آئی، ہمارے کام کرنے اور زندگی گزارنے کے طریقے میں انقلاب لا رہی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی سے اپنائی جانے والی ٹیکنالوجیز کی نمائندگی کرتے ہیں، جو پیداواری صلاحیت اور فیصلہ سازی کے عمل کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور افرادی قوت کا یہ امتزاج خاص طور پر سعودی عرب کے لیے اہم ہے، جو اپنے ویژن 2030 ایجنڈے کے حصے کے طور پر مصنوعی ذہانت کو اپنانے اور افرادی قوت کو تبدیل کرنے میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے۔
اپنی افرادی قوت کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلی سے محفوظ کرنے کے لیے سعودی عرب مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا تجزیات میں مسلسل سیکھنے اور ترقی پر زور دے رہا ہے۔
ملک اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان تعاون افرادی قوت کی تبدیلی کے عمل کے فروغ اور مستقبل کے چیلنجوں کے لیے تیاری یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔
سعودی افرادی قوت کو مستقبل میں مصنوعی ذہانت سے کام لینے کا اہل بنانے میں کارکنوں کو ضروری مہارتوں سے لیس کرنا اور جدت طرازی اور مطابقت پذیری کے ماحول کو فروغ دینا شامل ہے۔
تاہم، یہ تبدیلی چیلنجوں سے مبرا نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عروج سے غلط معلومات، دھوکہ دہی، انسانی فیصلے اور مشین الگورتھم کے درمیان نازک توازن کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
ان چیلنجوں کے باوجود، کارکردگی اور جدت طرازی کے لحاظ سے ممکنہ فوائد کافی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی جیسے جنریٹیو ماڈل ڈیٹا تجزیے اور آئیڈیے کی تیاری میں نئی توجیہ بیان کرتے ہیں۔
وہ انسانی پیداواری اور تخلیقی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ایسی صلاحیتوں کی پیش کرتے ہیں جن کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں۔ انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے اے آئی سے استفادے سے مختلف شعبوں میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
اس کے باوجود مصنوعی ذہانت سے کام لینے کے لیے متوازن طریقہ کار اپنانا بہت ضروری ہے جو خطرات کو کم سے کم کرتے ہوئے ثمرات زیادہ سے زیادہ کرے۔ اس عمل میں اخلاق مسائل پر توجہ دینا شامل ہے تاکہ تمام لوگوں کی شمولیت اور مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔
مصنوعی ذہانت سے جڑے وسیع تر سماجی مسائل جیسے کہ انسانی اقدار ’سے ہم آہنگی‘ اور نقصان سے ’محفوظ رہنا‘ کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ انضمام کے لیے ان مسائل سے نمٹنا ضروری ہے۔
سعودی عرب کی سٹریٹجک سرمایہ کاری اور افرادی قوت کی ترقی کے لیے اقدامات نے ملک کو ممکنہ طور پر مصنوعی ذہانت کے انقلاب کے عالمی لیڈرز میں سے ایک بننے کے لیے تیار کر دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال اور مسلسل سیکھنے اور جدت طرازی کی ثقافت کو فروغ دے کر، سعودی عرب خوشحال اور شمولیتی مستقبل یقینی بنا سکتا ہے جس میں اس کی افرادی قوت میں شامل ہر فرد کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والے منصوبوں کا حصہ بننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے مساوی مواقع میسر ہوں۔
مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا تجزیات کے معاملے میں ملکی عزم میں تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے جس سے مختلف شعبوں میں پیدواری اور جدت طرازی کے بڑے مواقع میسر آئیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختلف امور کی انجام دہی میں جیسے جیسے مشینیں جگہ لیتی جا رہی ہیں ملازمتوں کے میدان میں تبدیلی آ رہی ہے۔ انسانی کرداروں کو بڑی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مثال کے طور پر، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹس کسٹمر سروس کی کارکردگی کو بڑھا رہے ہیں، خودکار نظام ڈیٹا انٹری میں مصروف ہیں اور روبو ایڈوائزرز مالیاتی خدمات کو زیادہ قابل رسائی بنا رہے ہیں۔
تاہم، اس تبدیلی کو انسانی کارکنوں اور مشینوں کے مابین تصادم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس کی بجائے، ہمیں بہتری کی صلاحیت کا ادراک کرنا ہو گا جس کے تحت مصنوعی ذہانت انسانی صلاحیتوں کو صرف تبدیل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کر سکتی ہے.
اس پیشرفت کے باوجود، مصنوعی ذہانت کے نظام کی نگرانی، اخلاقی معیارات کو پورا کرنے، نظم وضبط اور ان پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے انسانی فیصلے کی ضرورت ہے جنہیں مشینیں تنہا حل نہیں کر سکیں۔
اس نکتے پر توجہ مرکوز کرکے کہ مصنوعی ذہانت کس طرح انسانی ذہانت کو مکمل کر سکتی، ہم جدت طرازی اور پیداواری صلاحیت کے نئے امکانات کھول سکتے ہیں۔
مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی طرف سفر مواقع اور چیلنجوں دونوں سے بھرا ہوا ہے۔
سعودی عرب کا فعال نقطہ نظر جس کی بنیاد وژن 2030 اور مصنوعی ذہانت اور افرادی قوت کی ترقی میں نمایاں سرمایہ کاری ہے، معاشی تنوع اور معاشرتی اصلاحات کے لیے مصنوعی ذہانت کی طاقت کو بروئے کار لانے کے اس کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
اخلاق مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب منصوعی ذہانت اور ڈیٹا تجزیے کو اپنا کر سعودی عرب ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبوں میں عالمی لیڈر بننے کے لیے اچھے مقام پر کھڑا ہے۔
ایسے مستقبل کی راہ ہموار کر رہا ہے جس میں نہ صرف خوشحالی ہو گی اور تمام لوگ شامل ہوں گے بلکہ اس کی نظریں آگے کی جانب ہوں گی۔
ایک ایسی دنیا کی تشکیل میں جس میں مصنوعی ذہانت کی تبدیل بدل ڈالنے کی طاقت بے مثال ترقی محرک کے طور پر کام کرتی ہے، سعودی عرب کی کوششیں، امید اور صلاحیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔
نکولس سی لوگرو جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے میک ڈونو سکول آف بزنس میں پریکٹس آف مینیجمنٹ کے پروفیسر ہیں۔