کیوں؟ میری پریشان دوست نے پوچھا جب میں نے اسے بتایا کہ میں اکیلی پورے سعودی عرب میں سفر پر جانے کا منصوبہ بنا رہی ہوں۔ میرا مختصر جواب تھا: ’کیونکہ بالآخر میں ایسا کر سکتی ہوں۔‘
عرب دنیا کے حوالے سے میری دلچسپی اس وقت شروع ہوئی جب میرے والد نے مجھے ولفریڈ تھیسیگر کی ایمپٹی کوارٹر (جزیرہ نما عرب کا الربع االخالی ریگستان) کو دلیری سے پار کرنے کی کہانی پر مبنی کتاب ’عربین سینڈز‘ پڑھنے کو دی۔
میں نے عربی پڑھنا اور پورے عرب خطے کا سفر کرنا جاری رکھا لیکن سعودی عرب ہمیشہ ’ممنوع‘ علاقہ محسوس ہوا۔
لیکن اب آپ چند منٹوں میں آن لائن سیاحتی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور خواتین نے یہاں بالآخر 2018 میں گاڑی چلانے کا حق حاصل کر لیا۔ یہی وقت تھا جب میں نے اس سرزمین پر قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سستی رینٹ اے کار کمپنی کے مالک انس کی اس وقت حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے اسے اپنے راستے کے انتخاب کے بارے میں بتایا۔ انس کا کہنا تھا: ’آپ کو اس کے لیے لامحدود سفر کرنا پڑے گا۔‘ میں نے بتایا کہ میں سعودی ڈرائیونگ کے بارے میں بہت گھبرائی ہوئی تھی خاص طور پر اوبر رائڈز کے دوران۔
انس نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا کیونکہ میں کرائے پر اس کی ایک کار استعمال کرنے والی تھی۔
’ہا! پہلے دن آپ کو آہستہ آہستہ چلنا ہو گا‘ اس نے گاڑی میں رکھے مسٹر میگو (کارٹون کردار) کی نقل کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
اپنے انگوٹھے کے ناخن کو دانتوں سے مارتے اور اپنی خیالی کار سے اپنے بازو کو باہر نکالتے اور میوزک چلاتے ہوئے وہ گویا ہوئے: ’لیکن کچھ کلومیٹر کے بعد آپ بھی ہماری طرح ڈرائیو کر پائیں گی۔‘
میں جمعے کو صبح 6.30 بجے درالحکومت ریاض سے روانہ ہوئی جس سفر کا اختتام 3,215 کلومیٹر کا چکر لگا کر واپس آنا تھا۔
میرا پہلا بڑا پڑاؤ جدہ میں تھا جہاں تاریخی پرانے شہر میں غیر ملکی کمیونٹی آباد ہے۔ یہ مئی کا وسط تھا اور باہر کا درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس تھا لیکن سعودی ایئر کنڈیشنگ سسٹم شاندار ہے اور یوں میں گرمی سے محفوظ رہی۔ مجھے آرام کی ضرورت تھی کیونکہ میں نے آگے طویل سفر طے کرنا تھا۔
میرا پہلا خطرناک مرحلہ ریگستان سے گزرنے کی منصوبہ بندی تھا۔ میری گاڑی سڑک سے اتر گئی اور سٹیئرنگ وہیل ایک طرف سے دوسری طرف جھولتا رہا۔ پھر اونٹ راستے میں آ گئے۔ کہیں سے ایک بڑا اونٹ لنگڑاتا ہوا اچانک میرے سامنے آ گیا۔ میرے پیچھے ایک بہت بڑا ٹرک آ رہا تھا تو میں خطرات کو ٹالنے کے لیے رک گئی، میری دعا تھی کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔
میں فیول ٹینک کو بھرنے اور پرسکون ہونے کے لیے سروس ایریا پر رکی۔ مجھے یقین ہے کہ کسی سپر مارکیٹ کی طرح، موٹر وے کے سروس ایریا کسی بھی ملک کے بارے میں فوری معلومات کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ پیٹرول کا آدھا ٹینک صرف 12 پاؤنڈ میں بھر گیا۔ پھر مسجد سے ملحقہ وضو خانے میں خواتین کے بیت الخلا گئی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے عبایا اور سر پر سکارف پہن رکھا تھا۔
سعودی عرب میں بڑی سماجی تبدیلی کے بعد اب آپ کو عبایا پہننے یا سر ڈھانپنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم آپ کو کہنی تک آستین اور گھٹنوں کے نیچے سکرٹ یا پتلون کے ساتھ ’مہذب‘ لباس پہننا چاہیے۔ میں مراکش میں رہی ہوں، اس لیے میں ایسے ڈریس کوڈ کی عادی ہوں اور اپنے عبایا اور سکارف میں بہت آرام محسوس کرتی ہوں۔
بے شک مجھے اب بھی غور سے دیکھا گیا لیکن زیادہ خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے۔ میرے سکارف روایتی سیاہ رنگ کے بجائے گلابی اور نارنجی رنگ کے تھے اور میرے خیال سے یہ پسندیدگی کی نظر تھی نہ کہ ’ارے یہ اس نے کہا پہنا ہوا ہے۔‘
بھوک لگنے پر میں نے ڈیڑھ پاؤنڈ میں سپائسی ساس اور تازہ سنترے کے جوش کے ساتھ فلافل سینڈوچ کا انتخاب کیا۔ یمنی باورچی کا رویہ دوستانہ تھا جس نے مجھے گھر کے پیچھے اپنے بچوں اور کھیت کی تصویریں دکھائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ سال میں ایک بار ایک ماہ کے لیے گھر جاتا ہے۔ آخری سٹاپ منی مارکیٹ تھی جہاں اونٹوں کے لگام سے لے کر کیریمل میگنمز تک تمام مزے دار چیزیں دستیاب تھیں۔
سڑک پر 10 گھنٹے ڈرائیو کے بعد، میں آسمانی بجلی کی گرج چمک کے ساتھ ساتھ طائف پہنچی۔
طائف ایک دلکش پہاڑی سیرگاہ ہے جہاں سعودی خاندان گرمیوں میں ٹھنڈک کا مزہ اٹھانے آتے ہیں۔ یہ اپنے گلاب کے باغات اور بندروں کے لیے مشہور ہے۔
یہاں آپ کو ہر جگہ میلے، کھیل کے میدان اور جوس اور سنیکس بیچنے والوں کے چھوٹے ٹھیلے ملیں گے۔ میں نے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں بکنگ کرائی تھی کیونکہ میں یہاں پہلی رات کچھ سکون اور تحفظ چاہتی تھی۔ میں اس بارے میں قدرے پریشان بھی تھی کہ لوگ تنہا سفر کرنے والی خاتون کے بارے میں کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔ لیکن نتیجہ گرمجوشی اور گپ شپ کی صورت میں نکلا۔ ریسٹورنٹ مینیجر ایک سعودی خاتون تھیں جن کا بریک فاسٹ بوفے بہت شاندار تھا جس میں ڈونٹس سرفہرست تھے۔
طائف سے باہر ڈرائیونگ کا ایک نیا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ غیر مسلموں کو مکہ شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جو اسلام کا سب سے مقدس شہر ہے جہاں اسلام کے اہم رکن حج کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے لاٹری کا نظام موجود ہے۔ گوگل میپس نے مجھے سیدھے آگے بڑھنے کی ہدایت کی لیکن ’غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے‘ کا سائن بورڈ میرے سامنے تھا۔ تین مقدس شہروں (جن کے مجھے نام یاد نہیں رہے) میں غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی ہے۔ پریشانی میں میں نے گوگل میپس کو ہی جاری رکھا۔ شاہراہ سے نکلنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اس لیے میں گاڑی اس امید پر آگے بڑھاتے گئی کہ میں کوئی قانون نہیں توڑ رہی۔ جان بوجھ کر غیر مسلم کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے کی کوشش پر آپ کو جرمانے اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تین گھنٹے کے سفر کے بعد جدہ پہنچنے کے بعد ایک دن میں راستے سے بالکل ہٹ کر ایک کچے راستے والے علاقے میں پہنچ گئی جہاں روایتی سفید عرب لباس پہنے مرد اپنے ٹرکوں کے اوپر بیٹھ کر سورج ڈوبنے کا نظارہ کر رہے تھے جب کہ کچھ خواتین زمین پر چٹائیاں بچھا کر ٹشوز اور ٹرنکیٹس فروخت کر رہی تھیں۔
شدا ہوٹل میں خاتون ریسپشنسٹ کا پرجوش اور دوستانہ استقبال راحت بخش تھا۔ اس ہوٹل کو سعودی بہنوں نے ڈیزائن کیا ہے اور وہی اسے چلا رہی ہیں۔ سعودی عرب کے اپنے پورے سفر میں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین سے ملی۔ ہوائی اڈے پر امیگریشن ڈیسک سے لے کر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سطح تک خواتین کام کرتی ہیں۔ یہاں پوری سجاوٹ میں روایتی عرب تھیمز کے ساتھ جدت کا امتزاج بھی ہے۔ یہ ایک پرسکون نخلستان کی طرح محسوس ہوا۔
سارہ عمر جدہ میں پیدا ہوئیں اور یہیں پرورش پائی۔ ان کی اپنی ٹریول ایجنسی ہے۔ وہ ایک لائسنس یافتہ گائیڈ ہیں وہ تاریخی پرانے شہر البلاد کی سیر کے لیے بہترین انتخاب تھیں۔ وہ اپنے سیاہ گھنگھرالے بالوں اور بے حد حسین سرخ اور سفید چیک والے ریشمی عبایا میں مجھ سے ملنے پہنچیں۔ ہم نے یہ سیر پرانے شہر سے شروع کی۔
سارہ نے بتایا: ’جب ہم بچے تھے تو عید کی صبح یہاں آیا کرتے تھے۔ ہم لکڑی کے بڑے جھولے میں سوار ہوتے تھے جسے ایک شخص ہاتھوں سے گھمایا کرتا تھا۔ پھر ہم گھر گھر جا کر ’ٹرِک اینڈ ٹریٹ‘ کھیلتے، دوستوں اور خاندان والوں سے مٹھائیاں اور پیسے (عیدی) جمع کرتے۔
پرانے شہر کو بڑی احتیاط سے بحال کیا جا رہا ہے اور اس کی خوب صورتی کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔ لکڑی کی نقش و نگار والی کھڑکیوں اور بالکونیوں (روشن) سے سجی اونچی عمارتیں، پر ہجوم تنگ گلیاں اور ان سے ٹکراتے کھجور کے درخت۔
سارہ نے مجھے رباط دکھایا۔ یہ ایسی رہائش گاہیں ہیں جہاں حکومتی خرچے پر بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین مفت رہ سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ اب بھی جدہ میں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسے جیسے سورج غروب ہوتا گیا شام کی ہوا ٹھنڈی ہونے سے گلیاں لوگوں سے بھر گئیں۔ یہاں فیملیز شاپنگ اور چقندر کے اچار چنے اور ’سٹریٹ چپس‘کھانے آتے ہیں جو چکنائی اور مزیدار گارلک چلی ساس کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
یہ تمام خواتین اور بچے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ خواتین کے لیے الگ علاقہ ہے؟ سارہ نے ہنستے ہوئے کہا ’نہیں۔ یہ صرف ہمارے کلچر کا حصہ ہے کہ مرد عورتوں کو یہاں بیٹھنے دیتے ہیں اور خود اپنا کھانا لے کر کھڑے رہتے ہیں۔‘
میں نے جدہ کے آرام دہ ماحول کو چھوڑ کر شمال کا رخ کیا۔ میرا انعام اس سفر کا بہترین منظر تھا۔ یہ راستہ سنہری ہموار میدانوں اور ببول کے درختوں سے ڈھکے ہوئے اونچے سرخ پہاڑوں سے بھرا پڑا ہے۔ میرا نائٹ سٹاپ وادی دِسہ تھا۔ یہ جلد ہی کھولے جانے والے محمد بن سلمان رائل ریزرو کا ایک حصہ ہے جو ایک ایسا نخلستان ہے جو پانی کے چشموں اور ریتلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر گلابی اولینڈرز پھولوں سے لدا ہوا ہے۔ تھوڑی سی بارش ہوئی اور میں کھجوروں کے جھنڈ کے درمیان گیلی ریت پر چہل قدمی کرنے لگی۔ میرے پیروں کے نیچے سے ننھے مینڈک کے بچے نکل آئے۔ ریگستانی زمین کی گیلی مٹی کی اپنی ہی منفرد خوشبو ہوتی ہے۔
یہ علاقہ ہزاروں سال سے آباد ہے۔ یہاں پانی کا مطلب زندگی ہے اور مجھے اس کا ثبوت سڑک کے کنارے چٹانوں پر کندہ ہزاروں سال پہلے کے جنگی مناظر سے ملا۔
جب میں ریاض واپس جا رہی تھی تو میں نے خبروں میں دیکھا کہ ایک نوجوان خاتون کو اس کے لباس کے انتخاب اور آن لائن اپنے خیالات کے اظہار کے الزامات کے تحت 11 سال کے لیے قید کی سزا سنائی گئی یے۔ یہ ایک تشویش ناک خبر تھی۔
سڑک پر طویل سفر آپ کو سوچنے کا وقت دیتے ہیں۔ سعودی عرب نے مجھے حیران کر دیا۔ میں جس سے بھی ملی وہ کھلے ذہن کا اور دوستانہ تھا۔ میں ایسے صحراؤں، ساحلوں، پہاڑوں اور نخلستانوں سے گزری جس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جدہ کی سٹریٹ فوڈ سے لے کر وادی دیسہ کی چٹانوں پر نقش و نگار تک، یہاں کی ثقافت بھی شاندار ہے۔
بنیادی طور پر میں خود حیران تھی کہ یہ میں نے کتنی آسانی سے پورے ملک میں ڈرائیوئنگ اور سیر کی۔ یہاں مجھے ایک تنہا خاتون کے طور پر سفر کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی میں نے کوئی تکلیف محسوس کی سوائے 10 گھنٹے کی ڈرائیوگ کے دوران مسلسل ٹانگیں موڑے رکھنے میں۔ میں نے ملک میں تبدیلی اور ترقی کا جذبہ محسوس کیا۔ میں سارہ اور انٹر کانٹینینٹل ہوٹل کی خاتون مینیجر سمیت جن خواتین سے بھی ملی انہیں اپنے ملک پر ناز تھا۔ 3,215 کلومیٹر طے کرنے کے بعد بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب میں دریافت کرنے اور سیکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ موجود ہے۔
© The Independent