امریکی محکمہ دفاع نے بدھ کو کہا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد نے اعتراف جرم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
توقع ہے کہ خالد شیخ محمد اور ان کے دو ساتھی ولید بن عطاش اور مصطفی الحوسوی اگلے ہفتے گوانتانامو بے، کیوبا میں فوجی کمیشن میں درخواستیں دائر کریں گے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے 11 ستمبر 2001 کی صبح مارے گئے تقریباً تین ہزار افراد میں سے کچھ کے اہل خانہ کو لکھے گئے خطوط میں کہا گیا ہے کہ دفاعی وکلا نے مجرمانہ درخواستوں کے بدلے میں ان افراد کے لیے عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
نائن الیون حملوں کے تقریبا تین ہزار براہ راست متاثرین کے خاندانوں کے ایک گروپ کی سربراہ ٹیری سٹراڈا نے درخواست کے معاہدے کی خبر سن کر ان درجنوں رشتہ داروں کا ذکر کیا جو انصاف کے انتظار میں انتقال کر گئے تھے۔
انہوں نے مدعا علیہان کے بارے میں کہا کہ ’جب انہوں نے حملے کی منصوبہ بندی کی تو وہ بزدل تھے اور وہ آج بھی بزدل ہیں۔‘
پینٹاگون حکام نے معاہدے کی مکمل شرائط فوری طور پر جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس معاہدے میں یہ شامل ہے کہ مجرموں کی جانب درخواستوں کے بدلے انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
اہلکار نے کہا کہ معاہدے کی شرائط کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا لیکن اس نے تسلیم کیا کہ عمر قید کی سزا ممکن ہے۔
ان افراد کے ساتھ امریکہ کا یہ معاہدہ القاعدہ کے حملے کے الزام میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع ہونے کے 16 سال بعد ہوا ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ 20 سال سے زائد عرصے قبل شدت پسندوں نے چار کمرشل طیارے ہائی جیک کر کے انہیں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون سے ٹکرا دیا تھا۔
القاعدہ کے ہائی جیکر چوتھے طیارے کو واشنگٹن کی طرف لے گئے لیکن عملے کے ارکان اور مسافروں نے کاک پٹ میں گھسنے کی کوشش کی اور طیارہ پنسلوانیا کے ایک میدان میں گر کر تباہ ہو گیا۔
اس حملے کے نتیجے میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں افغانستان اور عراق پر امریکہ نے فوجی حملے کیے اور مشرق وسطیٰ میں مسلح انتہا پسند گروہوں کے خلاف کئی سالوں تک امریکی کارروائیاں جاری رہیں۔
اس حملے اور امریکی جوابی کارروائی نے دو حکومتوں کا تختہ الٹ دیا، جنگ میں پھنسے ہوئے لوگوں اور ممالک کو تباہ کر دیا اور 2011 میں مشرق وسطیٰ کی آمرانہ حکومتوں کے خلاف عرب بہار کی عوامی بغاوتوں کو تحریک دینے میں کردار ادا کیا۔
اندرون ملک، ان حملوں نے امریکی معاشرے اور ثقافت کو مزید عسکری اور قوم پرست بنا دیا۔
امریکی حکام خالد شیخ محمد کو طیاروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے خیال کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن سے اس منصوبے کی اجازت حاصل کی تھی، جنہیں امریکی افواج نے 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ آپریشن میں قتل کر دیا تھا۔
امریکی حکام نے خالد شیخ محمد کو مارچ 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کیا تھا۔ گوانتانامو آنے سے قبل سی آئی اے کی حراست کے دوران خالد شیخ محمد کو 183 بار واٹر بورڈنگ اور دیگر اقسام کے تشدد اور جبری پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا۔
تشدد کا استعمال گوانتانامو میں فوجی کمیشن میں موجود افراد پر مقدمہ چلانے کی امریکی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے، جس کی وجہ بدسلوکی سے متعلق شواہد کی عدم قبولیت ہے۔
تشدد کی وجہ سے کارروائی میں زیادہ تر تاخیر ہوئی
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے ہیومن رائٹس گروپ کی ڈائریکٹر ڈیفن ایویاٹر نے بدھ کو کہا کہ وہ ان حملوں میں کچھ احتساب کی خبروں کا خیر مقدم کرتی ہیں۔
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ گوانتانامو بے حراستی مرکز کو بند کرے جہاں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں حراست میں لیے گئے افراد کو رکھا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بے گنا ثابت ہو چکے ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک جانے کے لیے منظوری کے منتظر ہیں۔
ایویاٹر نے مزید کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے ہوں گے کہ ریاست کی جانب سے جبری گمشدگی، تشدد اور دیگر بدسلوکی کا پروگرام دوبارہ کبھی نہیں کیا جائے گا۔‘
نائن الیون فیملیز یونائیٹڈ نامی متاثرین کے خاندانوں کے ایک گروپ کی قومی چیئرپرسن سٹراڈا مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں متعدد سول مقدمات میں سے ایک کی سماعت کے لیے موجود تھیں جب انہوں نے معاہدے کی خبر سنی۔
سٹراڈا نے کہا کہ بہت سے خاندان صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ملزمان اپنے جرم کا اعتراف کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ذاتی طور پر میں چاہتی ہوں کہ ایک ٹرائل ہو اور انہوں نے صرف وہ انصاف چھین لیا جس کی مجھے توقع تھی، ایک مقدمہ اور سزا۔‘
پلی بارگین کا حکومتی نوٹس حاصل کرنے والے خاندان کے ایک رکن مائیکل برک نے انصاف کے طویل انتظار اور نتائج کی مذمت کی۔
برک، جن کے فائر کیپٹن بھائی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور کا گرنے سے مارے گئے تھے، کا کہنا تھا کہ ’نیورمبرگ ٹرائلز میں کئی ماہ یا ایک سال کا عرصہ لگا۔ میرے لیے یہ ہمیشہ شرمناک رہا ہے کہ 23 سال بعد بھی ان لوگوں کو ان کے حملوں یا جرم کی سزا نہیں دی گئی۔ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس میں اتنا وقت کیسے لگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ لوگ حیران رہ جائیں گے اگر آپ اس وقت میں واپس جائیں اور ان لوگوں کو بتائیں جنہوں نے ابھی ٹاوروں کو گرتے ہوئے دیکھا ہے، ’اوہ، ارے، 23 سالوں میں، یہ لوگ جو اس جرم کے ذمہ دار ہیں جو ہم نے ابھی دیکھے ہیں، ان کے ساتھ معاہدہ ہوگا تاکہ وہ موت سے بچ سکیں اور جیل میں زندگی گزار سکیں۔‘